اشاعتیں

2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

Naseer deen pic

youtube naseer deen sjt

اے وطن کے " سجیلو " جوانو !!!! . یہ غربت تمهارے لیے ہے ..... . ارے چهوڑو !!! پرانی باتیں .... . دجلہ کے کنارے کتا بھی مر جائے ............. !!!!!!!!! . ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

مولانا طارق جمیل صاحب کی میں بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ داڑھی رکھنے کا شوق مجھے ان کے بیانات سے ہوا اور پھر جب میں تصوف کی طرف آیا تو اللہ نے اتنی ہمت دی کہ میں نے سنت کی نیت کرکے داڑھی رکھی اور بال بھی لمبے رکھے، وہ بھی کیا دن تھے جب میں روز استرا ہاتھ میں پکڑ کر داڑھی صاف کرنے کا سوچتا کیونکہ لوگ مذاق اڑاتے تھے، کہتے تھے کہ مولوی سے کون شادی کرے گا ہر کوئی مولوی مولوی کہہ کر تمسخر اڑاتا تھا لیکن جب نیت کی تو ذہن ایک دم صاف ہوگیا، اللہ نے شاید اسی نیکی کے اجر میں مجھے ایک اچھی بیوی دی جو ڈاکٹر بھی ہے اور میری عزت اور وقار میں اضافہ بھی کیا، مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میری دادی بیمار تھیں اور میں ان کو ملنے گیا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور بولیں کہ ہمارے خاندان میں ستر سال بعد تم نے داڑھی رکھی ہے تمھارے پر دادا کے بعد کسی نے نہیں رکھی انہوں نے بتایا کہ تمھارے دادا سے لے کر پچھلی 10 پشتوں میں سب کہ سب حافظ قرآن تھے ، یہ جان کر بھی خوشی ہوئی جب انہوں نے بتایا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے دو مساجد بھی تعمیر کیں آج بھی دہلی میں وہ مساجد قائم ہیں، میری دادی کچھ دن بعد اللہ کے پاس چلی گئیں لیکن ان کا مسکراتا چہرہ آج بھی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، انسان زندگی بھر سیکھتا ہے اور یہ عمل کبھی ختم نہیں ہوتا ، مولانا طارق جمیل ہوں یا ڈاکٹر زاکر نائیک ہوں یا ڈاکٹر اسرار ہوں یہ لوگ بہت اچھے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو دین کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں اور کتنے لوگوں کو راہ راست پر لائے ہیں، جو لوگ دین کی تبلیغ کرنے والوں کی تذلیل کرتے ہیں انہیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیئے کیونکہ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ ہونے دیتا ہے اس لئے ہمیں اللہ کے اچھے بندوں کو بُرا کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیئے ۔ ۔ زریابیاں

حضرت موسٰی علیہ اسلام جب کوہ طور پر تشریف لے گئے تو آپ کے پیچھے ایک شخص سامری نے قوم کو گمراہ کر کے شرک پر لگا دیا اور بچھڑا بنا کر قوم کو یہ باور کروایا کہ یہی تمہارا اور موسٰی علیہ اسلام کا الٰہ ہے یہ شخص منافق تھا اس کا اصل نام موسٰی بن ظفر تھا اور بنی اسرئیل ہی کے ایک قبیلہ سامرہ کا ریئس تھا بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بھی اسی زمانہ میں پیدا ہوا جس زمانہ میں فرعون نے تمام اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا حکم جاری کر رکھا تھا اس کی والدہ اس کی پیدائش کے بعد سخت پریشان ہوئی کہ اب کیا بنے گا فرعونی سپاہی تو میرے بچے کو قتل کردیں گے بچے کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھنا اس کے بس سے باہر تھا اس نے یہی بہتر سمجھا کہ اسے جنگل میں پہاڑ کے ایک غار میں رکھ کر اس کا منہ بند کر دے اگر اس نے بچنا ہوا تو اللہ تعالٰی بچالے گا اور اگر اس نے مرنا ہوا تو کم از کم میرے سامنے تو نہ مرے گا گویا اس نے بچے کو زندہ در گور کردیا اللہ تعالٰی نے اس بچے کو بچانا تھا چنانچہ حضرت جبریل علیہ اسلام کو اس کی حفاظت اور غذا دینے پر مامور کیا اس بچہ نے حضر ت جبریل علیہ اسلام کی نگرانی میں پرورش پائی جبریل علیہ اسلام جنت سے اس کی غذا لاتے ایک انگلی پر شہد دوسری پر مکھن تیسری پر دودھ لاتے اور اس کو چٹا دیتے یہاں تک ک یہ غار میں ہی پل کر بڑا ہو گیا اور بنی اسرائیل کی قوم میں آکر شامل ہو گیا اور پھر اس نے مکروفریب کر کے ساری قوم کو گمراہ کیا اور خود بھی گمراہ ہوا ادھر موسٰی علیہ اسلام سے بھی اسی ظرح کا واقعہ ہوا کہ ان کی والدہ نے فرعونی سپاییوں کے خوف سے انہیں سمندر میں ڈال دیا اور وہ پھر فرعون کے گھر میں پہنچ گئے اور وہاں پرورش پانے لگے اور پھر جوان ہوئے حتٰی کہ نبوت سے سرفراز ہوئے علماء کرام نے بیان فرمایا ہے کہ دونوں کا نام موسٰی ہے اور خدا کی قدرت کہ ایک کی پرورش فرعون نے کی اور وہ اللہ کے نبی بنے اور دوسرے کی پرورش حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کی اور وہ نہ صرف خود گمراہ ہوا بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ یہ بھی اللہ کی قدرت ہی ہے اور اللہ پاک جو چاہتا ہے کرتا ہے

السلام علیکم ہر کسی کا ایک مقصد ہے فیس بک پہ آنے کا میرا فیس بک پر آنے کا صرف ایک مقصد ہے کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچاؤ میں آپ کو بھی دعوت دیتا ھوں کے جومسلمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت كرتاہے اس اکاونٹ كو #فالو کريں شکریہ اسلام و علکیم اسلامک پوسٹس اور ویڈیوز کے لئے اس اکاونٹ کو #فالو کریں شکریہ

شوہر : تم نے عصر کی نماز پڑهه لی ؟ بیگم : نہیں شوہر : لیکن کیوں ؟ بیگم : ڈیوٹی سے تهک ہار کر آئی تهی اور آتے هی تهوڑی دیر کے لیے سوگئ تهی . شوہر : اچها ، چلیں اٹهیے عشاء کی أذان سے پہلے عصر اور مغرب کی نماز ادا کریں . دوسرا دن ....شوہر کام پر گیے ہوئے کئ گهنٹے ہوچکے هیں ، لیکن ابهی تک انہوں نے خیریت سے پہنچنے کی اطلاع کیوں نہیں دی ؟ حالانکہ وه ہمیشہ پہنچتے هی فون یا مسیج کے زریعہ اطلاع دیتا تها ؟!! بیگم بار بار شوہر کا نمبر ملا رهی هے تاکہ تسلی هو کہ میاں سلامت پہنچے هیں بار بار نمبر ملانے کے باوجود دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں بس فون کی گھنٹی هی بجتی رهی ، بیگم کا کلیجہ پهٹنے لگا ، طرح طرح کے وسوسوں اور خوف کی کیفیت ان پر طاری هوگئ ، پریشانی کے عالم میں وه فون کے ساتهه چمٹی مسلسل رابطے کی کوشش کر رهی هے ، کئ گهنٹوں کے جان لیوا انتظار اور کوشش کے بعد دوسری طرف سے فون پر شوہر بول رهے تهے . بیگم : بمشکل اپنی ٹوٹتی سانسوں کو سمیٹ کر پوچهتی هے ، تم خیریت سے تو پہنچے هو نا ؟؟؟ شوہر : جی ، الحمد للہ بیگم : کب پہنچے تهے ؟ شوہر : چار گهنٹے پہلے بیگم :حیرت اور غصے سے چار گهنٹے پہلے ؟ !! اور مجهے فون ؟ شوہر: طبیعت میں تهکان تهی پہنچتے هی کچهه دیر کے لیے آنکهه لگ گئ . بیگم : چند منٹ مجهه سے بات کرتے اور اپنی خیریت سے آگاہ کرتے تو تهکاوٹ میں اضافہ هوتا کیا ؟ پهر اتنی دیر تک میں کال کرتی رهی تم نے فون کی بیل نہیں سنی ؟ شوہر : کیوں نہیں ، سنا تها . بیگم : تعجب سے بس بہت ہوگیا ، یہی محبت هے ؟ میاں : نہیں نہیں ، لیکن کل آپ بهی تو أذان کی آواز سنتی رهی تهی مگر اس پر لبیک نہیں کہا ، جی ہاں أذان کی آواز ، رب العزت کا بلاوا ،!! رب العزت کی پکار !! بیگم : بے اختیار آنسوؤں کی لڑی آنکهوں سے گرتی هے ، کچهه دیر بالکل ساکت و صامت ہوکر ره جاتی هے ، پهر گویا ہوتی هے ، "آپ نے سچ کہا ، مجهے جهنجوڑ دیا هے ، مجهے سخت افسوس هے " شوہر : لیکن معاف کرنا میرے اختیار میں نہیں ، اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرو ،اور آئندہ ایسا مت کرو ، چوں کہ میں چاہتا ہوں هم خیر و بهلائی میں ایک دوسرے کا تعاون کرکے جنتوں کے بهی ساتهی بنیں ...!! ♡ جو شخص آپ سے سچی محبت کرتا هے وه تمہیں اللہ تعالیٰ کی راه میں آگے کرے گا اور خود آپ کے ساتهه کهڑا رهے گا تاکہ آپ واپس پیچهے کی طرف نہ لوٹیں . اگر ھر گھر میں ایسا ھونے لگے آج ابھی سےتو پاکستان کے آدھے مسائل آج روزہ افطاری سے پہلے حتم ھوجاے گے،

لوگ کہتے ھے : لاسٹ بلیٹ لوگ کہتے ھیں "شریعت کا نفاذ اور خلافت کا قیام" ھمیں ھزاروں سال پیچھے بھیج دے گا" میں پوچھتا ھوں یہ ھمیں کس زمانے کی طرف لوٹادے گا..؟؟؟ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانے کی طرف نا ﴿کیا ھم اس سے بھاگیں گے..؟؟؟﴾ یا عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کے زمانے کی طرف کہ جب وہ دو سپرپاور سمجھی جانے والی طاقتوں فارس اور روم کو فتح کر رھے تھے..؟؟؟ یا امویوں کے عھد میں کہ جب وہ خود شام میں ھوتے اور ان کے لشکر اسپین کے دل میں ..؟؟؟ یا بنو عباس کے دور کی طرف کہ جب مغرب ان کے آگے سرنگوں ھورھا تھا یا عبدالرحمن داخل کے عھد میں کہ جب وہ فرانس اور اٹلی کے گلے میں طوق پھنا رھا تھا..؟؟؟ یا عبد الرحمن اوسط کے عھد میں کہ جب وہ اسپین،پرتگال اور جنوب فرانس پر حکومت کر رھا تھا..؟؟؟ یا زنگی اور ایوبی کے زمانے میں کہ جب وہ پورے یورپ کو ناکوں چنے چبوارھے تھے..؟؟؟ یا عثمانیوں کے عھد میں کہ جب ان کا اقتدار افریقہ تک پھیل چکا تھا..؟؟؟ اگر "نفاذ شریعت اور قیام خلافت" ھمیں ان زمانوں میں دھکیل دے گا... تو... کاش.. کاش.. کاش ھم پیچھے چلے جآئیں تا کہ اسلام کی جانب سے ھمیں دی ھوئی عزت اور وقار پھر سے مل جاےٴ

کیا ہی خوبصورت سماں تھا۔ جوانی کے ارمان پورے ہورہے تھے۔ ایک نئی ازدواجی زندگی کا آغاز تھا۔ قدموں میں لرزش بھی تھی لیکن ایک خوشی بھی۔ قدم آہستہ آہستہ حجلہ عروسی کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ سامنے ایک دوشیزہ خود کو گھونگھٹ میں لپیٹے بیٹھی تھی۔ اس نے پڑے ارمان سے اپنا کرتا ابھی اتارا ہی تھا کہ اچانک۔ اچانک ایک صدا گلیوں میں گونجی۔ کچے اور چھوٹے مکانات میں صدائیں کیوں نہ گونجیں اور پھر وہ بھی رات کی تاریکی کا عالم۔ اس صدا میں ایک درد تھا ایک کرب تھا۔ اس کے قدم وہیں جم گئے اور اس نے اپنا کرتا واپس زیب تن کیا۔ صدا مسلسل گونج رہی تھی " حی علی الاجہاد" " حی علی الاجہاد" "صحرا نشیں کے سپاہیوں ، صحرا نشین کے دین کو تمہاری ضرورت ہے" پس اسی لمحے تلوار اٹھائی اور قدم پلٹ گئے۔ یک دم گھونگھٹ میں چھپی دوشیزہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ میری عزت کے محافظ میں نے تو آپ کو دیکھا بھی نہیں اگر آپ واپس نہ آئے تو میں کیسے پہچانوں گی؟ میں کہاں ڈھونڈوں گی ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں۔ میرا اللہ والی، آپ کا، اللہ کا نبی حامی لیکن جاتے جاتے کوئی نشانی تو دیتے جائیں۔ نوجوان نے اپنا گریباں پھاڑا اور بولا۔ میرا کرتا یہی ہوگا۔ میں ایسے ہی دفن ہوں گا۔ پس تم اس پھٹے کرتے سے پہچان لینا اگر ہچان پاو۔ یہ کہہ کر وہ نوجواں نوجوانی کے سب ارماں دل میں لئے، خوابوں کی کرچیوں کو پیروں تلے روند کر الٹے قدموں میدان کارزار میں نکل گیا۔ جب میدان ٹھنڈا ہوا۔ غبارِ جنگ کم ہوا تو سب ذخمیوں اور شہداء کو جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا کسی نے کہا فلاں اس طرف ہے کسی نے کہا فلاں اس طرف کہ اس اثناء میں ایک آواز آئی یا رسول اللہ صلواتہ وسلام ہم میں حنظلہ بھی تھے پر وہ نہیں ملتے۔ نبی محتشم شفیع امم رحمتہ للعٰلمین صلوٰتہ وسلام نے فرمایا۔ تم ڈھونڈ بھی نہیں سکتے کہ حنظلہ کو فرشتے عرش پر غسل دے رہے ہیں۔ عشق رسول صلوٰتہ وسلام پر مرنے والے دین محمدی صلوٰتہ وسلام پر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے۔ اللہ کی راہ میں اپنے خواب اپنے ارمان قربان کرنے والے کوئی عام لوگ نہیں ہوتے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب کوئی شہید زمین پر گرتا ہے تو اللہ عزرائیل کو روکتا ہے اور پکارتا ہے کہ ٹہرو اسکو میں نے پیدا کیا، اس نے میرے ہی لئے اپنی جان دی پس اس کی جان میں ہی لوں گا۔ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، آپ کو زخم کھاتے تو لوگوں نے دیکھا لیکن زخم کھا کر گرتے اور اس کے بعد کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ اور نہ کوئی تا قیامت آپ کے مرتبے کو پہچان سکتا ہے۔ نو بیاہتا دلہن، آپ کے کے انتظار میں تھی۔ اسی طرح جس طرح آج ہماری بیوی اور بچے ہمارے انتظار میں ہوتے ہیں اور انہی کی محبت میں ہم حق کو حق کہنے سے باز رہتے ہیں کہ اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو ان کا کیا ہوگا۔

سبحان الله نہایت زبردست لکھی گئی ... کاش میں دور پیمبر میں اٹھایا جاتا ... بخدا قدموں میں سرکار صلی اللہ علیھ والہ وسلم کے پایا جاتا ... ساتھ سرکار (صلی اللہ علیھ والہ وسلم ) کے غزوات میں شامل ہوتا ... ان کی نصرت میں لہو میرا بہایا جاتا ... ریت کے زرّوں میں الّلہ بدل دیتا مجھے ... پھر مجھے راہ محمد صلی اللہ علیھ والہ وسلم میں بچھایا جاتا ... خاک ہو جاتا میں سرکار صلی اللہ علیھ والہ وسلم کے قدموں کے تلے ... خاک کو خاک مدینہ میں ملایا جاتا ... مل کے سب لوگ مجھے مٹی سے گارا کرتے ... پھر مجھے مسجد نبوی میں لگایا جاتا ... کاش اے کاش میں ہوتا کوئ ایسی لکڑی ... جس کو سرکار صلی اللہ علیھ والہ وسلم کے ممنبر میں لگایا جاتا ... یا اترتا میں کسی نعت کے مصرعے بن کر ... روبرو ان (صلی اللہ علیھ والہ وسلم ) کے میں ان کو ہی سنایا جاتا ... ہوتے اس دور کا قصہ کوئ نورو عرفان... آج کے دور میں بچوں کو پڑھایا جاتا ...

خدا واقعات کی زبان میں بولتا ھے ،،،،، سورہ یوسف پڑھ لیں ،،،،،،،، ھر جگہ تقدیر کا رستہ روکنے والوں نے ٹھیک خدا کی منشاء کو ھی پورا کیا ھے اور اللہ کے مقصد کو حاصل کرنے میں اس کی مدد کی ھے ، کھلونے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، باپ نے ھونی کا رستہ روکنے کے لئے تدبیر کی کہ بھائیوں کو خواب مت بتانا ورنہ وہ کوئی چال چل جائیں گے تا کہ اس خواب کی تعبیر حاصل نہ ھو ،،،،،،،،،،،،،،،، مگر خود یوسف کو مستقبل کا نبی جان کر ان سے ٹوٹ کر پیار کرنا شروع کر دیا اور بھائیوں کے وار کی راہ ھموار کر دی ،، خود بھیڑیئے والا آئیڈیا ان کے کان میں پھونک دیا " و اخاف ان یأکلہ الذئب و انتم عنہ غافلو ن ،،،،، بھائیوں نے جان چھڑانے کے لئے ٹھیک وھی کنواں چنا جہاں مصر کے قافلے کو آنا تھا ،قافلے والوں نے ٹھیک اس گھر میں بیچا جہاں زلیخا تھی ،زلیخا نے ٹھیک اس وقت جیل پہنچایا جب وھاں بادشاہ کا ساقی آیا ، یوسف علیہ السلام کا ساقی کو اپنے کیس کا حوالہ ،،مگر ساقی کا بھول جانا اور یوسف علیہ السلام کا اللہ کی لکھی گئ مدت پوری کرنا ، عین قحط کے زمانے میں بادشاہ کا خواب ،یوسف کی تعبیر و تدبیر ،،، بھائیوں کا آنا ،،،،،،،،،،،،،،،،،، واقعات کی لائن لگی ھوئی ھے اور ھر بندہ اللہ کے لکھے ھوئے کو ایک کھلونے میں بھری گئ چابی کی طرح پورا کرتا چلا جا رھا ھے واللہ غالب علی امرہ ،، اللہ اپنا مقصد پا کر ھی رھتا ھے ،،،،،،،جس دن سے یہ سمجھا ھے واقعات و حادثات کے پیچھے فاعل حقیقی کھل کر کچھ اس طرح سامنے آیا ھے کہ ،،،،،،،،، اب واقعات کے معاملے میں بے حسی طاری ھو گئ ھے ،، نہ شادی داد سامنے ، نہ غم آورد نقصانے ،، باپیشِ ھمتِ ما ھر چہ آمد بود مہمانے !! سامانِ زندگی ملے تو خوشی نہیں ھوتی ، ضائع ھو جائے تو غم نہیں ھوتا ،، میرے ایمان کے سامنے یہ سب مہمان کی طرح آتے ھیں میں ان کو اچھے طریقے سے انٹرٹین کر کے فارغ کر دیتا ھوں ،،،،،،،،،، بس تجسس یہ ھوتا ھے کہ اب رحمان کیا کرنے جا رھا ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،

٭٭٭ اللہ غفور الرحیم ٭٭٭ ایک شرابی کے ہاں ہر وقت شراب کا دَور رہتا تھا. ایک مرتبہ اس کے دوست احباب جمع تھے شراب تیار تھی اس نے اپنے غلام کو چار درہم دیے کہ شراب پینے سے پہلے دوستوں کو کھلانے کے لیے کچھ پھل خرید کر لائے. وہ غلام بازار جا رہا تھا کہ راستے میں حضرت منصور بن عمار بصری رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس پر گزر ہوا وہ کسی فقیر کے واسطےلوگوں سے کچھ مانگ رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ "جو شخص اس فقیر کو چار درہم دے میں اس کو چار دعائیں دوں گا" اس غلام نے وہ چاروں درہم اس فقیر کو دے دیے. حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا, بتا کیا دعائیں چاہتا ہے...؟ غلام نے کہا میرا ایک آقا ہے میں اس سے خلاصی چاہتا ہوں. حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے دعا فرمائی اور پوچھا دوسری دعا کیا چاہتا ہے...؟ غلام نے کہا مجھے ان درہموں کا بدل مل جائے. حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی بھی دعا کی پھر پوچھا تیسری دعا کیا ہے...؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میرے سردار کو توبہ کی توفیق دے اور اس کی دعا قبول کرے. آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی بھی دعا کی پھر پوچھا چوتھی دعا کیا ہے...؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میری, میرے سردار کی, تمہاری اور یہاں مجمعے میں موجود ہر شخص کی مغفرت کرے. حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی یہ بھی دعا کی. اس کے بعد وہ غلام خالی ہاتھ اپنے سردار کے پاس واپس چلا گیا. سردار اسی کے انتظار میں تھا. دیکھ کر کہنے لگا " اتنی دیر لگا دی...؟ غلام نے قصہ سنایا. سردار نے ان دعاؤں کی برکت سے بجائے غصہ ہونے اور مارنے کے یہ پوچھا کہ کیا کیا دعائیں کرائیں...؟ غلام نے کہا پہلی تو یہ کہ میں غلامی سے آزاد ہو جاؤں..... سردار نے کہا میں نے تجھے آزاد کر دیا,دوسری کیا تھی...؟ غلام نے کہا مجھے ان درہموں کا بدلہ مل جائے..... سردار نے کہا میری طرف سے تمہیں چار ہزار درہم نذر ہیں,تیسری کیا تھی....؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ تمہیں شراب وغیرہ فسق و فجور سے توبہ کی توفیق دے.... سردار نے کہا میں نے اپنے سب گناہوں سے توبہ کر لی, چوتھی کیا تھی....؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میری,آپ کی, ان بزرگ کی اور سارے مجمع کی مغفرت فرما دے.... سردار نے کہا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے.... رات کو سردار کو خواب میں ایک آواز سنائی دی... جب تو نے وہ تینوں کام کر دیے جو تیرے اختیار میں تھے تو کیا تیرا یہ خیال ہے کہ اللہ وہ کام نہیں کرے گا جس پر وہ قادر ہے....؟ اللہ نے تیری, اس غلام کی, منصور کی, اور اس سارے مجمعے کی مغفرت کر دی ہے.... (ریاض الصالحین صفحہ ۱۲۰)

آنسو یار اورنگزیب ایک بات پوچھوں سچ سچ بتاﺅ گے۔ مشتاق نے اپنے بے تکلف دوست سے پوچھا۔ اورنگزیب نے حیرت سے مشتاق کو دیکھا اوربولا۔ اب مجھ سے اجازت لیا کرو گے بات پوچھنے کی بھی۔ یار وہ بات ہی ایسی ہے مجھے ڈر ہے کہیں تم ناراض نہ ہوجاﺅ۔ مشتاق نے جھجک کر کہا۔ اللہ کے بندے اب کہہ بھی ڈالو۔ اورنگزیب جھلا گیا۔ کل بھی میں نے تمہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور پھر تم رو رو کر دعا بھی مانگ رہے تھے میں حیران ہوں کہ تم نے کب سے نماز شروع کردی اور پھر یہ رو رو کر نماز پڑھنا میری سمجھ میں نہیں آیا، دعا تو ہر نمازی مانگتا ہے مگر میں نے کسی کو روتے ہوئے دعا مانگتے نہیں دیکھا۔ مشتاق کہتا چلا گیا۔ اورنگزیب کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی اس نے پیار بھری نظروں سے مشتاق کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا۔ میں نے چند دن قبل سے باقاعدہ نماز پڑھنی شروع کردی تھی، ایک دن اتفاق سے میرے سر میں درد تھا اور میں لیٹا ہوا تھا بس سوچتے سوچتے میں اپنی سابقہ زندگی کا سدباب کر بیٹھا تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں نے تو آخرت کے لیے کچھ بھی نہیں کمایا سوائے گناہوں کے، مجھے یہ احساس ہوا کہ ہر آدمی صبح اٹھ کر کسی نہ کسی صورت میں روزگار کے لیے نکلتا ہے اسی طرح ہم بھی دنیا میں ایک خاص مقصد کے لیے آئے ہیں، بس یہ وہی لمحہ تھا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق گزاروں گا۔ اورنگزیب چپ ہوگیا مشتاق بہت متاثر نظر آرہا تھا۔ اورنگزیب پھر بولنے لگا۔ مشتاق یار، بس کیا بتاﺅں میں نے جہنم کا تصور کیا اللہ کے عذاب کے بارے میں سوچا تو مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی اب میں جب بھی نماز ادا کرتا ہوں اللہ کے خوف سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ اورنگزیب کا لہجہ کہتے کہتے بھر گیا تھا۔ چند لمحے خاموشی میں بیت گئے پھر مشتاق بولا۔ کیا اللہ ہمارا اس طرح رونا پسند کریں گے۔ اورنگزیب جذباتی لہجے میں بولا۔ اللہ کو دو قطرے بہت پسند ہیں، ایک آنسو کا قطرہ جو اس کے خوف سے نکلے اور دوسرے خون کا وہ قطرہ جو جہاد میں کسی زخم سے ٹپکے۔ چند لمحے توقف کے بعد وہ مزید بولا، جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ پاس سے گزرتے سر حیدر نے اورنگزیب کی گفتگو کا آخری جملہ سنا تو وہ رک گئے۔ انہیں بہت خوشی ہوئی کہ اسکول کے ہاف ٹائم میں جب سارے بچے کھیل رہے تھے یا دیگر تفریحات میں مصروف ہیں دو ذہین اور اچھے طالب علم دین کی باتوں میں مصروف ہیں وہ بھی ان دونوں کے نزدیک گھاس پر بیٹھ گئے۔ ان دونوں کو سر حیدر کی آمد سے خوشی ہوئی، مشتاق نے قدرے اختصار کے ساتھ ساری بات سنائی۔ سر حیدر نے کہا۔ اگر میں کچھ کہوں تو آپ لوگوں کو یہ مداخلت بری تو نہیں لگے گی۔ نہیں سر، دونوں کہہ اٹھے۔ سر حیدر بولے، تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک انصاری پر خدا کا خوف اس قدر غالب ہوگیا تھا کہ ہر وقت رویا کرتے تھے۔ جب وہ آگ کا ذکر سنتے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے دل میں ڈر اتنا بیٹھ گیا تھا کہ وہ گھر میں پڑے رہتے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر سنا تو ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور جا کر ان کو گلے لگالیا۔ انصاری پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ گر پڑے اور روح پرواز کرگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگوں اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو خدا کے خوف نے اس کا دل پاش پاش کردیا۔ سر حیدر کی بات ختم ہوئی اور ادھر ہاف ٹائم کے ختم ہونے کی بیل بجی۔ شام کو اورنگزیب مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا کہ اس نے سسکیوں کی آواز سنی، سلام پھیر کر دیکھا تو مشتاق روتے ہوئے اپنی سابقہ غلطیوں اور گناہوں پر اللہ کے حضور رو رو کر معافیاں طلب کررہا تھا۔ بے اختیار اورنگزیب کی بھی آنکھیں بھرا گئیں اور آنسو گرنے لگے۔ کتنے مبارک اور مقدس آنسو ہوتے ہیں جو اللہ کے لیے گریں، اللہ کے خوف سے آنکھوںسے نکلیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ (ان فرشتوں کو جو دوزخ پر مقرر ہوں گے) حکم دے گا کہ جس شخص نے کبھی مجھے یاد کیا یا کسی موقع پر جو بندہ مجھ سے ڈرا اس کو دوزخ سے نکال لیا جائے۔ ترمذی شریف

کہانی ایک توبہ کی ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ شہزادی منصور بن عمار کا کہنا ہے کہ میرا ایک دوست تھا جو بہت گناہ کرتا تھا۔ آخر اس نے توبہ کر لی، پھر میں نے دیکھا کہ وہ بڑی پابندی سے نیک کام کرنے لگا اور تہجد گزار بھی بن گیا ایک دن میری اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔ میرے پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہے۔ میں اس کے گھر پہنچا، دستک دی تو اس کی بیٹی نکلی، اس نے پوچھا کس سے ملنا ہے؟ میں نے بتایا تو لڑکی نے اپنے والد سے میرے لیے اجازت طلب کی۔ جب میں گھر میں داخل ہوا تو وہ بستر پر لیٹا ہوا تھا، اس کے چہرے پر سیاہی چھا گئی تھی، آنکھیں آنسو برسا رہی تھیں اور ہونٹ پھول گئے تھے۔ میں دہشت زدہ ہو گیا عرض کیا: برادر من! کثرت سے لا الہ الا اللہ پڑھو۔ اس نے پھٹی نگاہوں سے میری طرف دیکھا پھر اس پر غشی طاری ہو گئی۔ میں نے دوبارہ کہا: برادر من! زیادہ سے زیادہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کا ورد کرو۔ اسی طرح میں نے تیسری مرتبہ پھر کلمہ پڑھنے کی تلقین کی۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور بڑی حسرت سے بولا: بھئی منصور! میرے اور اس کلمے کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے۔ مین نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور پوچھا بھئی آخر ان نمازوں، روزوں اور تہجد و شب بیداری کا کیا ہوا؟ وہ بولا: یہ سب کچھ غیر اللہ کے لئے تھا۔میری توبہ دکھلاوے کی تھی۔ میں یہ سب اس لئے کرتا تھا تا کہ لوگوں کے درمیان موضوع سخن بنار ہوں اور وہ میرا چرچا کرتے رہیں۔ مجھے یاد کرتے رہیں یہ سب کچھ میں نے لوگوں کے دکھلاوے کے لیے کیا تھا۔ جب میں تنہا ہوتا تو دروازہ بند کرتا، پردہ گراتا، شراب نوشی کرتا اور اپنے پروردگار کی نافرمانی میں مگن ہو جاتا تھا۔ مدتوں میرے یہ کرتوت رہے حتیٰ کہ مجھے بیماری نے آ پکڑا اور میں ہلاکت کے دہانے پر پہنچ گیا۔ میں نے اپنی بیٹی سے قرآن پاک طلب کیا اور اللہ تعالیٰ کے کلام حق کی قسم کھا کر شفا یاب ہونے کی دعا مانگی اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں وعدہ کیا اب ہر گز کسی قسم کا گناہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء یاب کر دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء عنایت کر دی تو پھر اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑا اور لہو و لعب اور لذات و خواہشات میں ڈوب گیا۔ شیطان نے بھی مجھے تھپکی دی میری گمراہیوں کو دھاوا دیا۔ اس نے میرے اور پروردگار کے درمیان کیا گیا عہد و پیمان ردی کی ٹوکری میں ڈلوا دیا اور میں دیر دیر تک طرح طرح کے گناہوں کی طغیانوں میں ڈبکیاں لگاتا رہا۔ یکایک پھر مجھے بیماری نے آ دبوچا اور میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ میرے اہل خانہ نے میرے حکم کے مطابق حسب معمول گھر کے بیچ بستر لگا دیا۔ میں نے قرآن کریم منگوایا اس کی تلاوت کی اور اسے اٹھا کر بے آواز یہ دعا کی۔” الہٰی اس قرآن پاک میں موجود تیرے محرمات کی قسم کھا کر عہد کرتا ہوں اگر تو نے مجھے صحت بخش دی تو اب میں ہر گز برائیوں میں ملوث نہیں ہوں گا “۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعا سن لی، میری توبہ قبول فرمائی اور مجھے صحت و عافیت سے نواز دیا۔ لیکن افسوس اپنی پستی اور عہد شکنی پر کہ اس رب کریم کی بار بار مہربانی کے باوجود میں پھر لہو و لعب اور لذت و خواہشات کے گرداب میں ڈوب گیا۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ آج اس درد ناک مرض میں مبتلا ہو چکا ہوں، حسب عادت میرے اہل خانہ نے بیچ گھر میرا بستر لگا دیا ہے جیسا کہ تم بچشم خود دیکھ رہے ہو۔ میں نے پھر قرآن منگوایا، تلاوت کرنے لگا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ رب العزت مجھ پر سخت غضبناک ہے، پس میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور دعا کی” الہیٰ زمین و آسمان کے حکمران! میری مصیبتوں سے مجھے نجات دے “۔ لیکن میرے کانوں میں ایک آواز گونجی، پھر یوں لگا جیسی کوئی غیبی آواز یہ کہہ رہی ہو۔ ؛” جب تمہیں بیماری آ لگتی ہے تو گناہوں سے تائب ہو جاتے ہو لیکن جونہی شفا نصیب ہوتی ہے تو گناہوں میں ملوث ہو جاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے درد و الم سے کتنی دفعہ نجات بخشی ہے اور بارہا آزمائش کے گڑھے سے نکالا ہے۔ کیا تجھے خواہشاتِ نفسانی کے طوفان میں اڑنے سے پہلے کا خوف دامن گیر نہیں ہوا حالانکہ خطا کاریوں کی بنا پر تجھے بارہا آفت رسیدہ ہونا پڑا تھا “۔ منصور بن عمار کہتے ہیں اللہ کی قسم! جب میں اس سے رخصت ہو کر واپس چلا تو میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں، میں ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ بے ساختہ آہ بکا میں بھیگی ہوئی آواز آئی:”وہ مر گیا “ کتاب : مائتہ قصۃ و قصۃ القسم الاول 21-23 مصنف مھمد امین الجندی

خون ناحق کی دھشت ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ شہزادی جب سے حضرت سعید بن جبیر نے کوفہ میں رہائش اختیار کی تھی ، یہ شہر حجاج بن یوسف کے زیر تسلط آچکا تھا، حجاج ان دنوں عراق، ایران اور سرزمین ماوراء النہر کا گورنر تھا، اور اس کا رعب ودبدبہ ،ظلم وستم، جبروقہر اور اقتدار واختیار نقطہ عروج پر تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب حجاج بن یوسف نے چاروں طرف بنوامیہ کے خلاف اٹھنے والی شورش کی آگ کو بجھادیا تھا، اس نے بندگان خدا کی گردنوں پر بے دریغ تلوار چلائی، ملک کے کونے کونے میں اپنے رعب ودبدبہ کی ایسی دھاک بٹھادی کہ لوگوں کے دل اس کی پکڑ دھکڑ سے لزرنے لگے۔ حضرت سعید بن جبیر کو بس اتنی سی جرم کی سزا میں شھید کیا گیا کہ اس نے حجاج کے بارے میں کہا تھا " تم نے خطا کی ھے ظلم کیا ھے برای کی ھے اور حد سے آگے بڑھ گیے ھو" حجاج بن یوسف کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے حضرت سعید بن جبیر کو اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا،فوجی حضرت سعید بن جبیر کے گھر گیئے اور دروازے پر دستک دی، حضرت سعید بن جبیر اس غضبناک دستک کو سمجھ گیئے۔ آپ نے پوچھا : کیا چاھتے ہو فوجی : حجاج نے آپکو فوراََ طلب کیا ھے سعید بن جبیر : تھوڑا صبر کرو میں آتا ہوں اندر جاکر غسل فرمایا اور حنوط شدہ ملا عطر ( مردوں کے استعمال کے لیے) لگایا کفن پہنا اور فرمایا " اے پرودگار میرے لیے حجاج کے شر سے کافی ھوجا" جب سعید بن جبیر کو حجاج بن یوسف کے دربار میں پیش کیا گیا، حجاج نے انہیں کینہ پرور نگاہوں سے دیکھا اور بڑے حقارت آمیز لہجے میں پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: سعید بن جبیر حجاج نے کہا: نہیں بلکہ تیرا نام شقی بن کسیر ہے۔ فرمایا: میری والدہ میرے نام کے متعلق تجھ سے بہتر جانتی ہے حجاج نے کہا: توشقی اور تیری ماں بھی شقی ہیں۔ سعید نے کہا: غیب کا علم کسی اور کو ہے، (یعنی اللہ تعالیٰ) وہ ذات جانتی ہے کہ میں اور میری ماں جنتی ہیں یا دوزخی۔ تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ سعید نے کہا: تم اپنے آپ سے زیادہ واقف ہو۔ حجاج نے کہا: نہیں، بلکہ میں تمہاری رائے جاننا چاہتا ہوں۔ سعید نے کہا: میری بات تمہیں مغموم کردے گی نہ کہ خوش۔ حجاج نے کہا: ٹھیک ہے ہم تم سے سنیں گے۔ سعید کہنے لگے: مجھے معلوم ہے کہ تم اللہ کی کتاب کے مخالف ہو، تم رعب جمانے کے لیے ایسی چیز کرتے ہو جو تمہیں جہنم تک پہنچائے گی۔ حجاج : میں تم کو سونے چاندی سے نوازنا چاھتا ھوں سعید کے سامنے سونے چاندی کے تھیلے ڈال دو جو فوراََ ڈال دیئے گیئے سعید ؛ یہ کیا ھے حجاج ! اگر یہ مال تو نے اللہ ک رضا اور اللہ کے غیض و غضب سے بچنے کے لیے بنایا ھے تو یہ قابل تعریف ھے لیکن اگر یہ مال تو نے غریب لوگوں اور ناجائز طریقے سے ھڑپ لی ھے تو قسم ھے تم کو روز قیامت سے ڈرنا چاھیئے، حجاج : سعید تم ھماری طرح ھنستے کیوں نھی؟ سعید : جب میں روز قیامت کا تصور کرتا ھو کہ قبروں سے نکال دیئے جاے گے اور سینوں کے پوشیدہ راز پاش کیئے جاے گے تو میں اس دن کے ڈر سے ھنسی بھول جاتا ھو، حجاج: تو سعید پھر ھم کو ھنسی کیوں آتی ھے؟ سعید : لوگوں کے دل یکساں نھی ھوتے حجاج۔ حجاج نے کہا: ہم تم کو ایسے قتل کردینگے جس کی مثال نھی ھوگی؟ سعید نے کہا: اے حجاج! تو اپنے لیے جیسے قتل کا طریقہ چاہتا ہے وہی اختیار کر، اللہ کی قسم تو مجھے جس طرح قتل کرے گا آخرت میں اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح تیرا قتل فرمائیں گے۔ حجاج : ہم تمھاری دنیا کو ایسی آگ میں تبدیل کردینگے جو بڑی شغلہ بار ھوگی سعید: اگر تم ایسا کرنے پر قادر ھوتے تو میں اللہ کو چھوڑ کر تیری عبادت کرتا پھر حجاج نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں معاف کردوں۔ سعید نے کہا: اگر معافی ہوئی تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے،اور اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں۔ حجاج نے کہا: اسے لے جاؤ اور قتل کردو، (جب حضرت سعید اس کے پاس سے نکلے تو ہنس دیا) حجاج نے کہا: کس چیز نے تمہیں ہنسایا؟ سعید نے کہا: تیری اللہ پر جراءت اور اللہ کی تجھ پر نرمی نے مجھے تعجب میں ڈالا۔ تو حجاج نے کہا: اس کا سر قلم کردو اور ذبح کے لیے اسے لٹادے۔ سعید کی زبان سے جاری ہوا: إني وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ۔ [الأنعام: 79] ’’میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمان وزمین بنایا۔‘‘ حجاج نے کہا: اس کی پشت کو قبلے کی طرف کردو۔ سعید کہنے لگے: فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ [البقرة: 115] ’’تو جدھر بھی تم رخ کرو، ادھر ہی اللہ کی ذات ہے‘‘ پھر حجاج نے حکم دیا : اسے منہ کے بل لٹادیا جائے۔ سعید کہنے لگے: مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى۔[طه: 55] ’’اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا، اسی میں لوٹائیں گے، اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے‘‘ حجاج کہنے لگا : بڑا تعجب ہے اس پر، اس موقع پر اسے یہ آیات کیسے یاد آرہی ہیں! اسے ذبح کردو! سعید کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، حجاج یہ کلمات لو اور پھر قیامت کے دن اس کے ساتھ ملاقات ہوگی۔۔ اس کے بعد حضرت سعید نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا کہ وہ میرے بعد کسی کو قتل کرسکے۔ سعید بن جبیر کو ذبح کردیا گیا، اللہ تعالیٰ نے سعید کی دعا کو قبول فرمایا، پھر ان کے بعد حجاج کسی کو قتل نہیں کرسکا۔۔ حضرت سعید کی شہادت کے بعد حجاج صرف چالیس دن ہی زندہ رہا، یہ بھی کہا جاتا ہے وہ پندرہ دن یا صرف تین دن زندہ رہا، سخت بخار میں مبتلا ہوا اور مر گیا، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب حسن بصری کو حجاج کے ہاتھوں حضرت سعید کے قتل کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی: "اللهم يا قاصم الجبابرة اقصم الحجاج". ’’اے سرکشوں کو ختم کرنے والے! حجاج کو ختم فرما‘‘ ان کی دعا کے تین دن بعد ہی حجاج کے پیٹ میں ایک کیڑہ پیدا ہوا اور وہ بری موت مرگیا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حجاج کی موت سے چند دن پہلے اس کی زندگی خوابوں میں تبدیل ہوگئی تھی، اس کی نیند اڑ چکی تھی، جب بھی سونے کی کوشش کرتاخواب میں سعید بن جبیر اس کے پیروں کو کھینچتے ہوئے دکھائی دیتے، حجاج بھڑبھڑا کر چیختے ہوئےنیند سے بیدار ہوجاتا اور کہتا : ارے یہ سعید بن جبیرابھی ابھی انھوں نے میرے پیروں کو پکڑا تھا، اور کبھی چیختے ہوئے بیدار ہوتا : ارے سعید بن جبیر میرا گلا گھونٹ رہا ہے اور کبھی نیند سے یہ کہتا ہوا بیدار ہوتا: سعید بن جبیر کہہ رہا ہے کس جرم میں تونے مجھے قتل کیا؟ پھر حجاج رونے لگ جاتا اور کہتا میرا اور سعید بن جبیر کا کیا معاملہ ہے۔ حجاج بن یوسف کا بیان ھے کہ اس رات جب میری آنکھ لگ گیئ تو میں نے خود کو خون کے دریاؤں میں تیرتا دیکھا،حجاج کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ اس کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ راستہ چلتے ہوئے بڑ بڑاتا تھا’’ سعید بن جبیر کو میرے پاس سے ہٹاؤ‘‘ یہ بھی منقول ہے کہ بعض لوگوں نے حجاج کو خواب میں دیکھا تو اس سے پوچھا: حجاج اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ حجاج نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے بدلے مجھے ایک ایک بار قتل کیا اور سعید بن جبیر کے بدلے ستر مرتبہ قتل کیا۔ اللہ تعالیٰ تابعی جلیل حضرت سعید بن جبیر پر رحم فرمائے،جن کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: سعید بن جبیر شہید کردیئے گئے، لیکن روئے زمین کا ہر باشندہ ان کے علم کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت سعید بن جبیر پر اپنی رحمتوں کی برکھا برسائے، اور انھیں نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اپنے وسیع وعریض جنت میں داخل فرمائے البدایہ والتاریخ صفحہ 38 جلد 6 وسیر اعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 330 المنتظم فی التاریخ الملوک الامم 7/7

Some interesting and strange news from all over the world

پاک ہے میرا رب جو دلوں کاحال جانتا ہے مگر پھر بھی دنیا کے سامنے ہمیں رسوا نہیں کرتا میرا رب اتنا کریم ہے کہ نیکی کے ارادے پرثواب دیتا ہے مگرگناہ کرنےکے بعد توبہ کی توفیق دیکر اسے ثواب میں بدل دیتا ہے میں اپنے رب کی کس کس نعمت کا شکر ادا کروں

٭٭ اللہ غفور الرحیم ٭٭٭ ایک شرابی کے ہاں ہر وقت شراب کا دَور رہتا تھا. ایک مرتبہ اس کے دوست احباب جمع تھے شراب تیار تھی اس نے اپنے غلام کو چار درہم دیے کہ شراب پینے سے پہلے دوستوں کو کھلانے کے لیے کچھ پھل خرید کر لائے. وہ غلام بازار جا رہا تھا کہ راستے میں حضرت منصور بن عمار بصری رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس پر گزر ہوا وہ کسی فقیر کے واسطےلوگوں سے کچھ مانگ رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ "جو شخص اس فقیر کو چار درہم دے میں اس کو چار دعائیں دوں گا" اس غلام نے وہ چاروں درہم اس فقیر کو دے دیے. حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا, بتا کیا دعائیں چاہتا ہے...؟ غلام نے کہا میرا ایک آقا ہے میں اس سے خلاصی چاہتا ہوں. حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے دعا فرمائی اور پوچھا دوسری دعا کیا چاہتا ہے...؟ غلام نے کہا مجھے ان درہموں کا بدل مل جائے. حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی بھی دعا کی پھر پوچھا تیسری دعا کیا ہے...؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میرے سردار کو توبہ کی توفیق دے اور اس کی دعا قبول کرے. آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی بھی دعا کی پھر پوچھا چوتھی دعا کیا ہے...؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میری, میرے سردار کی, تمہاری اور یہاں مجمعے میں موجود ہر شخص کی مغفرت کرے. حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی یہ بھی دعا کی. اس کے بعد وہ غلام خالی ہاتھ اپنے سردار کے پاس واپس چلا گیا. سردار اسی کے انتظار میں تھا. دیکھ کر کہنے لگا " اتنی دیر لگا دی...؟ غلام نے قصہ سنایا. سردار نے ان دعاؤں کی برکت سے بجائے غصہ ہونے اور مارنے کے یہ پوچھا کہ کیا کیا دعائیں کرائیں...؟ غلام نے کہا پہلی تو یہ کہ میں غلامی سے آزاد ہو جاؤں..... سردار نے کہا میں نے تجھے آزاد کر دیا,دوسری کیا تھی...؟ غلام نے کہا مجھے ان درہموں کا بدلہ مل جائے..... سردار نے کہا میری طرف سے تمہیں چار ہزار درہم نذر ہیں,تیسری کیا تھی....؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ تمہیں شراب وغیرہ فسق و فجور سے توبہ کی توفیق دے.... سردار نے کہا میں نے اپنے سب گناہوں سے توبہ کر لی, چوتھی کیا تھی....؟ غلام نے کہا حق تعالٰی شانہ میری,آپ کی, ان بزرگ کی اور سارے مجمع کی مغفرت فرما دے.... سردار نے کہا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے.... رات کو سردار کو خواب میں ایک آواز سنائی دی... جب تو نے وہ تینوں کام کر دیے جو تیرے اختیار میں تھے تو کیا تیرا یہ خیال ہے کہ اللہ وہ کام نہیں کرے گا جس پر وہ قادر ہے....؟ اللہ نے تیری, اس غلام کی, منصور کی, اور اس سارے مجمعے کی مغفرت کر دی ہے.... (ریاض الصالحین صفحہ ۱۲۰)

A lady went to Mecca with her children on summer vacation

ایک بار حضرت موسی اللہ سے ہمکلام ہونے جارہے تھے تو ایک تند دست انسان نے انہیں روک کر کہا ...اے اللہ کے نبی! جب آپ وہاں جائیں تو میری بھی عرضداشت پیش کیجئیے گا کہ میرے حصے کا جتنا رزق ہے وہ اللہ ایک بار ہی مجھے دے دے تاکہ میں ایک دن ہی سہی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پیٹ بھر کر کھا سکوں. آپ نے جا کر حسب وعدہ وہی عرضداشت پیش کی تو جواب آیا...... اے موسی علیہ السلام ! اس بندے کا رزق صرف ایک بوری اناج کے برابر ہے اس لیے اسے تنگ دستی کے ساتھ دیتا ہوں کہ ساری عمر اسے رزق ملتا رہے. آپ نے واپسی پر یہی جواب اس سائل کو دے دیا اس نے پلٹ کر کہا .... اے اللہ کے نبی! آپ کا جب دوبارہ جانا ہو تو اللہ کے سامنے دست بدستہ عرض فرمائیے گا کہ مجھے وہ ایک بوری رزق ایک دفعہ ہی عنایت کردیں تاکہ میں پیٹ بھر کر کھا سکوں.آپ نے ایسا ہی کیا اور اگلی بار اللہ کی جانب سے اس کا سارا رزق ایک بار ہی مل گیا پھر آپ کچھ عرصے بعد وہاں سے گزرے تو دیکھا وہ شخص بہت اچھے حال میں تھا اور اسکے گھر کے آگے دیگیں چڑھی ہوئی تھیں .... آپ کو حیرت ہوئی آپ نے جا کر عرض کی.... اے باری تعالی! آپ کا کہا پتھر پر لکیر ہے مگر میں اتنے عرصے بعد گزرا ہوں مگر اس کا رزق تو ابھی تک جاری ہے بلکہ بہت اچھے طریقے سے اسے مل رہا ہے. اللہ نے فرمایا... اے موسی! تم سچ کہتے ہو مگر وہ شخص بہت ذہین نکلا اس نے دئیے گئے رزق سے خود بھی کھایا اور گھر والوں کو بھی پیٹ بھر کر کھلایا مگر جو رزق باقی بچا وہ اس نے میری راہ میں خیرات کر دیا اور یہ میں نے ہی وعدہ کیا ہے کوئی میری راہ میں ایک حصہ خرچ کرے تو میں اسے ستر حصے واپس کر کے دیتا ہوں ........ اس نے مجھ سے تجارت کر لی ہے موسی )علیہ السلام( اور میں اپنے وعدے کے مطابق اسے مسلسل لوٹا رہا ہوں.

آج کل کی زندگی بھی فیس بک کی طرح ھے، لوگ آپ کے مسائل اور پریشانیاں لائیک کریں گے، انھیں حل کرنے کی فرصت شاید کسی کے پاس بھی نہیں، کیونکہ سب اپنے اپنے مسائل ""آپ ڈیٹ "" کرنے میں مصروف ھیں---

ہندوستان میں مشہورِ زمانہ طاعون پھیلا جس نے محلے اور گلیاں لاشوں سے بھر دیں. دفنانے کے لیے لوگ میسر نہ تھے اور ہر گھر میں کہرام بپا تھا. اس زمانے میں مولانااحمد رضا خانؒ بریلوی کو شدید بخار کا سامنا کرنا پڑا. تمام تر علامات طاعون کی پائی جاتی تھیں. بخار کی وجہ سے غشی کے دورے پڑتے تھے. مگر مولانا جب بھی ہوش میں آتے تو کہتے کہ مجھے طاعون نہیں ہے، مجھے طاعون کبھی نہیں ہو سکتا اور یہ کہہ کر پھر بے ہوش ہو جاتے. تمام لوگ مایوس ہو چکے تھے. قبر کی تیاری کے لیے لوگ قبرستان بھیج دیے گئے اور دور کے عزیزوں کو پیغام بھی ارسال کر دیے گئے تھے، کہ اچانک بخار ٹوٹ گیا اور مولانا ہوش میں آ گئے. بعد میں کسی نے سوال کیا کہ آپ جب بھی ہوش میں آتے تھے تو اتنے یقین سے کیوں فرماتے تھے کہ مجھے طاعون نہیں ہے، مجھے طاعون نہیں ہو سکتا. تو کہنے لگے کہ نبیِ کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جو بندہ کسی کو کسی مصیبت میں دیکھ کر یہ دعا پڑھ لے: الحمد اللہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ )ولوا شاء فعل( وفضلنی علیٰ کثیرٍ من خلقہ. 'ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے مجھے اس مصیبت سے عافیت میں رکھا جس میں آپ مبتلا ہیں اگر وہ چاہتا تو مجھے بھی لگا سکتا تھا مگر اس مجھے اپنی بہت ساری مخلوق پر فضیلت بخشی'،، تو اس کو وہ مصیبت کبھی نہیں آتی. میں نے ایک طاعون زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھ رکھی تھی لہٰذا یقینِ کامل تھا کہ اور کوئی بیماری ہوسکتی ہے مگر طاعون نہیں ہوسکتا کیونکہ میرے نبی کا فرمان جھوٹا نہیں ہوسکتا. ----

اگر آپ کی بیوی ڈبل سم والا موبائل استعمال کرتی ہے تو دونوں نمبر "بیگم " کے نام سے ہی سیو کریں، کبھی بھی بیگم 1 اور بیگم 2 کے نام سے سیو نہ کریں۔۔ (انتہائی نگہداشت وارڈ سے ایک شوہر کا قوم کے شوہروں کے نام آخری پیغام)

ایک سچا واقعہ ایک بوڑھے سکھ کی اپنی زبانی ملاحظہ ہو: "1947ء میں ہندوستان کے بٹوارے کے وقت دہلی میں ہم نے مسلمانوں کو قتل عام کرنے کا فیصلہ کیا۔ دستور ہم نے یہ بنایا کہ دس دس مسلح آدمیوں کا جتھہ بنا کر نکل جاتے۔ جو بھی مسلمان نظر آتا اسے مار ڈالتے۔ بیس پچیس دن تک یونہی ہوتا رہا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے شکار ملنا کم ہوتا گیا۔ اکثر جتھے خالی لوٹنے لگے۔ ایک دن ہم لوگ واپس آرہے تھے کہ ایک تھڑے پر ایک مسلمان بیٹھا ملا۔ دبلا پتلا ایک کمزور سا انسان تھا۔ کالا رنگ، چھوٹی چھوٹی داڑھی، ایک میلا سا تہمد باندھے اور کھدر کی قمیص پہنے ہوئے تھا۔ ہم نے کہا: "چلو نیچے اترو۔" بولا: "کیوں؟" ہم نے کہا: "تمھیں قتل کریں گے۔" پوچھنے لگا: "میرا قصور کیا ہے؟" جواب میں ایک سکھ نے کہا: "تو مسلمان ہے یا نہیں؟" کہنے لگا: "بلکل! خدا کے فضل سے مسلمان ہوں۔" ہم نے کہا: "بس اسی لیے تجھ کو قتل کریں گے۔" اس نے جواب دیا: "اچھا یہ بات ہے تو اس سے اچھی موت اور کیا ہوگی۔" یہ کہہ کر وہ نیچے اتر آیا۔ ہم کو مذاق کی سوجھی۔ ایک نے کہا: "جان بچانا چاہتے ہو تو بچ سکتی ہے؟" اس نے پوچھا: "کس طرح؟" میں نے کہا: "سکھ ہو جاؤ تو چھوڑ دیں گے۔" یہ سن کر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ گرج کر بولا: "کافر کے بچو میں مسلمان ہوں۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔" ایک سکھ کرپان کا وار کرنے کے لیے آگے بڑھا تو وہ مسلمان بجلی کی طرح اچھلا اور ایک ہی جست میں خالصہ جی سے کرپان چھین کر دو گز پیچھے جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا: "لواب آؤ۔ دیکھوں مجھے کون سکھ بناتا ہے۔" ہم سب اس پر ٹوٹ پڑے پر وہ کرپان چلاتے چلاتے ہمارے تین آدمی گھائل کر چکا تھا۔ آخر ہم نے نیزہ استعمال کیا جو اس کے سینے کے پار ہو گیا۔ وہ بے دم ہو کر زمین پرگر پڑا۔ ایک سردار جی نے گالی دے کر کہا: "دیکھا مزہ؟" جواب دیا: "ہاں دیکھا، اسی مزے کے لیے تو جان دی ہے۔"

عدالت کے کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مقدمے کا فیصلہ سننے والے چند سیاسی قیدی عدالت میں موجود تھے۔ سیاسی قیدی بلا وجہ پکڑے گئے تھے۔ سب لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک شور بلند ہوا اور انگریز جج کمرہ عدالت میں داخل ہوا۔ سب لوگ جج کو تعظیم دینے کے لیے کھڑے ہو گئے مگر ایک بارعب و پروقار شخص اپنی کرسی پر بیٹھا رہا۔ وہ انگریز جج کی تعظیم میں کھڑا نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر انگریز جج سر سے پاؤں تک غصے سے کانپ گیا اور کڑک کر بولا۔ “اس سیاسی سے کرسی چھین لی جائے۔“ اس سے پہلے کہ کوئی سیاسی قیدی سے کرسی چھینتا، وہ خود اٹھا، اس نے کرسی اٹھا کر دور پھینک دی اور زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور انگریز جج سے بولا، “کرسی چھیننے والے ظالم! کیا اللہ کی زمین بھی چھین لو گے؟“ یہ سن کر انگریز جج سناٹے میں آ گیا۔ یہ عظیم شخص مولانا محمد علی جوہر تھے

ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺁﺭﺯﻭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺍﻻ ﺑﻦ ﺟﺎﺅﮞ ﯾﺎ ﺑﺰﺭﮔﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﻣﺴﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﯽ ﻃﻠﺐ ﻧﮩﯿﮟ ,ﻣﯿﺮﯼ ﺩﺍﻧﺴﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻡ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﺬﺍ ﺕ ﺧﻮﺩ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮨﮯ ,ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺁﺭﺯﻭ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺥ ﻣﺜﺒﺖ ﺭﮨﮯ,ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ، Naseer Deen

جب خشکی پر بحری جہاز چلے.." 22 اپریل 1453ء ایک ایسا تاریخی دن ہے جب دنیا نے اک ایسی جنگی حکمت عملی دیکھی جس پر وہ آج بھی انگشت بدنداں ہے جب محاصرۂ قسطنطنیہ کے دوران "سلطان محمد فاتح" نے بحری جہازوں کو خشکی پر چلوا دیا.. آبنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج "شاخ زریں" کے دہانے پر بزنطینی افواج نے اک زنجیر لگا رکھی تھی جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز شہر کی فصیل کے قریب نہ جا سکتے تھے.. سلطان نے شہر کے دوسری جانب غلطہ کے علاقے سے جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر اس خلیج میں اتارنے کا عجیب و غریب منصوبہ پیش کیا اور 22 اپریل 1453ء کو عثمانیوں کے عظیم جہاز خشکی پر سفر کرتے ہوئے شاخ زریں میں داخل ہو گئے.. سلطان کے اس خیال کو حقیقت بنانے کے لیے عثمانی افواج نے خشکی پر راستہ بنایا اور درختوں کے بڑے تنوں پر چربی مل کر جہازوں کو ان پر چڑھا دیا گیا.. علاوہ ازیں موافق رخ سے ہوا کی وجہ سے جہازوں کے بادبان بھی کھول دیے گئے اور رات ہی رات میں عثمانی بحری بیڑے کا ایک قابل ذکر حصہ شاخ زریں میں منتقل کر دیا.. صبح قسطنطنیہ کی فصیل پر کھڑے بزنطینی فوجی آنکھیں ملتے رہ گئے کہ آیا یہ خواب ہے یا حقیقت کہ زنجیر اپنی جگہ قائم ہے اور عثمانی جہاز شہر کی فصیل کے قریب کھڑے ہیں.. بہرحال یہ حکمت عملی قسطنطنیہ کی فتح میں سب سے اہم رہی کیونکہ اسی کی بدولت عثمانیوں کو جنگ میں پہلی بار حریف پر نفسیاتی برتری حاصل ہوئی.. بعد ازاں 29 مئی کو انہوں قسطنطنیہ کو فتح کر لیا اور صدیوں کی کشت و خون کا حاصل "اسلام بول (استنبول)" امت مسلمہ کا مرکز و محور بن گیا.. زیر نظر تصویر اس تاریخی واقعے کی عکاسی کرتی ہے جسے معروف اطالوی مصور فاؤسٹو زونارو نے 1908ء میں بنایا تھا.. Naseer Deen

جنتیوں کا قد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام ادنٰی و اعلٰی جنتی حضرت آدم علیہ السلام کے قد پر ہونگے۔ اور آپ کا قد مبارک ستر ہاتھ تھا۔ جنتی جوان بے ریش ہونگے آنکھوں میں سرمہ لگا ہو گا۔ ان کے بال گرم پانی سے دھلے ہونگے اور ان کی عورتیں بھی ایک ہی طرح کی ہونگی۔ جنت کا درخت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ سوار اس کے سائے میں سات سو سال چلے گا پھر بھی ختم نہ ہو گا اس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور اس کی ہر شاخ پر شہر آباد ہے۔ ہر شہر کی لمبائی دس ہزار میل ہے اور دو شہروں کے درمیان مشرق سے مغرب کے درمیان جتنا فاصلہ ہے اور سبیل کے جشمے ان محلات سے شہروں کی طرف رواں ہونگے۔ ایک پتے کے سائے میں ایک بہت بڑی جماعت بیٹھے گی۔ جنتی مرد اور اس کی زوجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی جنتی اپنی بیوی کے پاس جائے گا تو وہ اسے کہے گی اللہ کی قسم جس نے مجھے تیرے سبب اعزاز بخشا مجھے جنت کی کوئی چیز تجھ سے زیادہ پسند نہیں۔ آپ نے فرمایا مرد بھی اسے یہی بات کہے گا۔ جنت کی بے مثل اشیاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں وہ کچھ ہے کہ تعریف کرنے والے اس کی تعریف نہیں کر سکتے اور نہ دنیا والوں کے دلوں میں اس کا خیال آ سکتا ہے اور نہ ہی کسی سننے والے نے اسے سنا ہے اور اس میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جن کو مخلوق نے نہیں دیکھا۔ جنتی پرندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی پرندہ کے ستر ہزار پر ہونگے ہر پر کا رنگ دوسرے سے جدا ہو گا اور ہر پر ایک مربع میل ہو گا جب کوئی مومن اس کی خواہش کرے گا تو اسے ایک پیالے میں رکھا جائے گا اور وہ اپنے آپ کو جھاڑے گا تو اس سے پکے ہوئے اور بھنے ہوئے پرندے کی طرح ستر کھانے ظاہر ہونگے اس کے علاوہ مختلف رنگ ہونگے ان کا ذائقہ مَنْ سے بھی زیادہ اچھا ہو گا مکھن سے زیادہ نرم ہو گا اور چھاچھ سے زیادہ سفید ہو گا جب جنتی اسے کھا لے گا تو وہ اپنے پروں کو جھاڑتے ہوئے اڑ جائے گا اور اس کا ایک پر بھی کم نہ ہو گا۔ اللہ تعالٰی کی زیارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنتی دار السلام میں اللہ تعالٰی کی زیارت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی اپنے رب کی زیارہت کریں گے تو کھائیں پئیں گے اور نفع اندوز ہونگے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالٰی فرمائے گا اے داؤد علیہ السلام اپنی بہترین آواز سے میری بزرگی بیان کرو پس وہ جب تک اللہ تعالٰی چاہے گا اس کی بزرگی بیان کریں گے۔ ان کی خوش آوازی سے جنت کی ہر چیز خاموش ہو جائے گی پھر اللہ تعالٰی ان میں سے ہر ایک کو لباس اور زیور عطا فرمائے گا اور وہ اپنے اہل خانہ کی طرف لوٹ آئیں گے۔ جنتی بیویاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل جنت کی بیویوں میں سے ہر ایک کے سینے پر لکھا ہو گا تو میرا محبوب اور میں تیری محبوبہ نہ تجھ سے رو گردانی کی جائے گی اور نہ کوتاہی۔ میرے دل میں کسی قسم کا کھوٹ اور آلائش نہیں، جنتی جب اپنی بیوی کے سینے کی طرف دیکھے گا تو چمڑے اور گوشت کے اوپر سے اس کے جگر کی سیاہی دیکھ لے گا گویا عورت کا جگر اس کے لئے شیشہ ہے۔ اور اس کا جگر عورت کا شیشہ ہے۔ وہ جگر عورت میں اس طرح غائب ہو گا جس طرح یا وقت میں دھاگہ غائب ہوتا ہے۔ (یعنی نظر آئے گا) وہ مرجان کی طرح سفید اور یا قوت کی طرح صاف و شفاف ہونگی۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ”گویا وہ یا قوت اور مرجان ہیں“ (غنیۃ الطالبین، مصنف: شیح عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

کہتے ھیں کہ ایک شخص صبح سویرے اُٹھا، صاف کپڑے پہنے اور مسجد کی طرف ھو لیا تاکہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کی سعادت حاصل کرے۔ راستے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑا، کپڑے کیچڑ سے بھر گئے۔ واپس گھر آیا، لباس بدل کر واپس مسجد کی طرف روانہ ھوا۔ پھر ٹھیک اُسی مقام پر ٹھوکر کھا کر گرا اور گھر آ کر لباس بدلا اور پھر مسجد کی طرف روانہ ھوا۔ جب تیسری مرتبہ اُس مقام پر پہنچا تو کیا دیکھتا ھے کہ ایک شخص چراغ ھاتھ میں لے کر کھڑا ھے اور اُس اپنے پیچھے پیچھے چلنے کا کہہ رھا ھے۔ وہ شخص اُسے مسجد کے دروازے تک لے آیا۔ پہلے شخص نے اُس سے کہا کہ آپ بھی آ کر نماز پڑھ لیں، لیکن وہ چراغ ھاتھ میں تھامے کھڑا رھا اور مسجد کے اندر داخل نہیں ھوا۔ دو تین بار انکار کے بعد اُس نے پوچھا: "آپ مسجد آ کر نماز کیوں نہیں پڑھ لیتے؟" دوسرے مرد نے جواب دیا؛ "اِس لئے کہ میں ابلیس ھوں۔" پہلے شخص کی انتہا نہ رھی جب اُس نے یہ سنا۔ شیطان نے اپنی بات جاری رکھی۔ "یہ میں ھی تھا جس نے آپ کو زمین پر گرایا تھا۔ جب آپ نے گھر جا کر لباس تبدیل کئے اور دوبارہ مسجد کی سمت روانہ ھوئے تو اللہ نے آپ کے سارے گناہ بخش دیئے۔ جب میں نے دوسری مرتبہ آپ کو گرایا اور آپ لباس پہن کے مسجد کی طرف جانے لگے تو اللہ نے آپ کے سارے خانوادے کے گناہ بخش دئیے۔ میں ڈر گیا کہ اگر اب کے آپ کو گرایا اور آپ پھر لباس بدل کر مسجد کی طرف چلے تو کہیں اللہ آپ کے سارے گاؤں کے باشندوں کے گناہ نہ بخش دے، اِسی لئے میں مسجد تک خود آپ کو پہنچانے آیا ھوں۔"

بہت عرصے کی بات ہے۔ ایک بادشاہ اپنی رعایا کا بےحد خیال رکھتا تھا اور اپنے بزرگوں کی تقلید کرتے ہوئے روزانہ سادہ کپڑوں میں شہر کی گلیوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے بارے میں معلوم کرتا رہتا تھا کہ لوگ کس طرح دن گزار رہے ہیں۔ ایک رات بادشاہ حسب معمول شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ جیل کے دروازے تک پہنچ گیا۔ جیل کے پاس سپاہی ایک چور کو پکڑ کر اندر لے جا رہا تھا۔ بادشاہ نے سوچا آج جیل کے اندر جا کر دیکھنا چاہیے کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔ یہ سوچ کر بادشاہ جیل کے دروازے کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ کو دیکھتے ہی سپاہیوں نے پہچان لیا اور تعظیم سے سر جھکا دیے۔ بادشاہ نے جب سپاہیوں کو بتایا کہ وہ جیل کا معائنہ کرنا چاہتا ہے تو سپاہی بادشاہ کو لے کر اندر چلے گئے۔ قیدیوں کو جب پتا چلا کہ بادشاہ سلامت خود چل کر ان سے ملنے آئے ہیں تو وہ سب بادشاہ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ بادشاہ نے باری باری ان سے ان کے حالات پوچھے۔ بادشاہ نے ایک قیدی سے پوچھا، "تمہیں کس جرم کی سزا ملی ہے؟" وہ آدمی کہنے لگا، "بادشاہ سلامت! میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں بےگناہ ہوں۔ مجھے چوری کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ حالانکہ میں نے زندگی میں کبھی چوری نہیں کی۔" بادشاہ نے جب دوسرے قیدی سے پوچھا کہ تمہارا قصور کیا ہے تو اس نے بھی روتے ہوئے بادشاہ سے کہا کہ میں بےقصور ہوں، میں نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن یہ سپاہی پھر بھی مجھے پکڑ کر لے آئے ہیں۔ غرض جتنے بھی قیدی تھے سب ہی نے بادشاہ کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ بےگناہ ہیں۔ بادشاہ سلامت سب کی باتیں سنتے رہے اور مسکراتے رہے۔ اتنے میں بادشاہ کی نظر ایک ایسے قیدی پر پڑی جو سر جھکائے الگ بیٹھا تھا۔ بادشاہ نے سپاہیوں سے کہا کہ اس آدمی کو ہمارے پاس لاؤ، یہ کیوں منہ چھپائے بیٹھا ہے؟ سپاہی جب اس آدمی کو بادشاہ کے پاس لائے تو بادشاہ نے پوچھا، "اے نوجوان! کیا بات ہے؟ تم منہ چھپائے کیوں بیٹھے ہو؟" اس آدمی نے روتے ہوئے کہا، "بادشاہ سلامت! میں بےحد گناہ گار ہوں۔ میرے گناہ نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ میں کسی کو منہ دکھا سکوں۔" بادشاہ نے کہا، "ہمیں بتاؤ تو سہی تم نے کیا جرم کیا ہے؟" اس شخص نے کہا، "میں ایک اچھا آدمی تھا۔ ہمیشہ ایمانداری سے کام کرتا تھا۔ ایک دن نجانے کیوں میرے دل میں شیطان نے گھر کر لیا اور میں نے ایک آدمی کے پیسے چرا لیے اور یوں مجھے جیل بھیج دیا گیا۔" بادشاہ نے سوچتے ہوئے کہا، "یہاں یہ سب بے گناہ ہیں سواے تمہارے۔ صرف تم ہی ایک ایسے آدمی ہو جس نے اپنے آپ کو گناہ گار بتایا ہے۔ لہذا اتنے بے گناہ لوگوں میں ایک گناہ گار کو نہیں رکھنا چاہیے۔ میں تمہیں رہا کرتا ہوں۔" کچھ عرصہ بعد بادشاہ پھر جیل کا معائنہ کرنے آیا اور باری باری قیدیوں سے ملاقات کی۔ اس دفعہ ہر قیدی نے بادشاہ کو اپنے جرم کی تفصیل سنائی۔ بادشاہ نے یہ سننے کے بعد حکم جاری کیا کہ یہ لوگ واقعی گناہ گار ہیں۔ انہیں ابھی تک شرمندگی کا احساس نہیں۔ یہ بڑے فخر سے اپنے جرموں کی کہانی مزے لے لے کر سناتے ہیں۔ لہذا ان کی سزا اور بڑھا دی جائے۔ یہ سن کر وہ لوگ بےحد حیران ہوئے اور بادشاہ کے جانے کے بعد اس کے وزیر سے پوچھنے لگے کہ جب اس شخص نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا تھا تو بادشاہ نے اسے چھوڑ دیا تھا لیکن جب ہم نے گناہ کا اعتراف کیا ہے تو بادشاہ نے ہمیں اور سزا دی ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کا وزیر جو بادشاہ کے مزاج کو سمجھتا تھا، کہنے لگا، "پہلے آدمی کو اس لیے چھوڑا گیا کہ اس نے جرم کا اعتراف اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ آزاد ہونا چاہتا تھا، بلکہ اس لیے کیا تھا کہ وہ اپنے کیے پہ نادم تھا۔ لیکن تم لوگوں نے پہلی دفعہ بادشاہ کو اپنی بےگناہی کی کہانی سنائی تاکہ وہ تمہیں آزاد کر دے۔ اور اس دفعہ گناہ کا اعتراف بھی اس لیے کیا کہ شاید بادشاہ تمہیں چھوڑ دے، اس لیے بادشاہ نے تمہیں آزاد نہیں کیا۔" بالکل اسی طرح اگر ہميں سچ میں اپنی غلطی يا گناہ کا احساس ہو جائے اور اس پر ندامت بھی ہو تو ہم صدق دل سے معافی بھی مانگ ليں گے اور وہ رحيم وکريم يقينا" ہميں معاف بھی کر دے گا ۔

یک بادشاہ نے ایک شاہراہ بنوائی اور پھراس پر ایک دوڑ کا اعلان کیا، جس میں تمام شہری حصہ لیں اور جو سب سے اچھا سفر کرے گا بادشاہ اُسے اِنعام دے گا۔ سب نے حصہ لیا۔ بادشاہ سب دوڑنے والوں کے تاثرات پُوچھتا رہا ۔ سب نے شاہراہ کی تعریف کی اور بتایا کہ شاہراہ پر ایک جگہ بجری پڑی ہے ۔ اگر اُسے اُٹھوا دیا جائے تو بہت اچھا ہو ۔ شام تک سب لوگ چلے گئے ایک سپاہی نے خبر دی کہ دوڑ میں حصہ لینے والوں میں سے ایک آدمی ابھی آنا باقی ہے ۔ کچھ دیر بعد ایک شخص تھکا ہارا ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑے پہنچا اور بادشاہ سے مخاطب ہوا "جناب عالی ۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا ۔ راستہ میں کچھ بجری پڑی تھی ۔ میں نے سوچا کہ اِس شاہراہ سے گذرنے والوں کو دقّت ہو گی ۔ اُسے ہٹانے میں کافی وقت لگ گیا ۔ بجری کے نیچے سے یہ تھیلی ملی ۔ اس میں سونے کے سِکّے ہیں ۔ جس کے ہو اُسے دے دیجئے گا ۔ بادشاہ نے کہا " یہ تھیلی اب تمہاری ہے ۔ میں نے رکھوائی تھی ۔ یہ تمہارا انعام ہے ۔ بہترین مسافر وہ ہوتا ہے جو مستقبل کے مسافروں کی سہولت کا خیال رکھے

ﻭﮦ ﻏﺮﯾﺐ ﺧﺎﻧﮧ ﯾﺎ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﯿﺸﺎﻥ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺘﺮ ﮬﮯ ﺟﺲ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﺍﺑﯽ ﺟﻮﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﻮﮞ _ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺑﯿﻮﺍﺅﮞ ﯾﺘﯿﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﮐﻮ ﻏﺼﺐ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮬﻮ

یک دفعہ ایک نصرانی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے۔ ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ سوالات درج ذیل ہیں:۔ پہلا سوال ایک ماں کے شکم سے دو بچے ایک دن ایک ہی وقت پید اہوئے۔ پھر دونوں کا انتقال بھی ایک ہی دن ہوا۔ ایک بھائی کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی سوسال چھوٹی ہوئی۔ یہ کون تھے؟ اور ایسا کس طرح ہوا؟ دوسرا سوال وہ کونسی زمین ہے کہ جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک دفعہ سورج کی کرنیں لگیں‘ نہ پہلے کبھی لگی تھیں نہ آئندہ کبھی لگیں گی۔؟ تیسرا سوال وہ کونسا قیدی ہے جس کی قید خانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے۔؟ چوتھا سوال وہ کونسی قبر ہے جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی پھرتی تھی۔ پھر وہ مردہ قبر سے باہر نکل کر کچھ عرصہ زندہ رہ کر وفات پایا۔؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ ان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قلم برداشتہ جواب تحریر فرمادیا۔ پہلاجواب جو دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت پیدا ہوئے اور دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی اور ان کی عمر میں سو سال کا فرق۔ یہ بھائی حضرت عزیز علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام تھے۔ یہ دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ان دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی۔ لیکن بیچ میں حضرت عزیر علیہ السلام کو اپنی قدرت کاملہ دکھانے کیلئے پورے سو سال مارے رکھا۔ سو سال موت کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی۔ سورہ آل عمران میں یہ ذکر موجود ہے۔ ”وہ گھر گئے پھر کچھ عرصہ مزید زندہ رہ کر رحلت فرمائی۔“ دونوں بھائیوں کی وفات بھی ایک دن ہوئی۔ اس لیے حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر اپنے بھائی سے چھوٹی ہوئی اور حضرت عزیز علیہ السلام کی عمر سو سال بڑی ہوئی۔ دوسرا جواب وہ زمین سمندر کی کھاڑی قلزم کی تہہ ہے کہ جہاں فرعون مردود غرق ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے دریا خشک ہوا تھا۔ حکم الٰہی سے سورج نے بہت جلد سکھایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مع اپنی قوم بنی اسرائیل پار چلے گئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر داخل ہوا تو وہ غرق ہوگیا اس زمین پر سورج ایک دفعہ لگا پھر قیامت تک بھی نہ لگے گا۔ تیسرا جواب جس قیدی کو قیدخانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے وہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے شکم میں قید ہے۔ خداوند تعالیٰ نے اس کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا اور نہ وہ سانس لیتا ہے۔ چوتھا جواب وہ قبر جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ۔ وہ مردہ حضرت یونس علیہ السلام تھے اور ان کی قبر مچھلی تھی جو ان کو پیٹ میں رکھے جگہ جگہ پھرتی تھی یعنی سیر کراتی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر عرصہ تک حیات رہے پھر وفات پائی

عنوان آپ خود دیں: شہزادی ایک گروپ میں لڑکی کی پوسٹ "ہیلو فرینڈز ، میں یہ گروپ چھوڑ کے جا رہی ہوں ، اگر میری کوئ بات کسی کو بری لگی ہو تو سوری" فیلنگ سَیڈ( رمضان المبارک میں شیطان کے جانشینوں کے اس پوسٹ پہ کمنٹس ملاحظہ کیجیے۔ اوہ ، کیا ہوا کیوں جارہی ہو؟؟ _!_ پلیز مت جاؤ ، گروپ کی رونق ہی آپ سے ہے۔ _!_ ہاں یہ ٹھیک کہ رہا ہے اگر آپ چلی گئیں تو گروپ ویران ہوجاۓ گا۔ _!_ میں اس گروپ کا ایڈمن ہوں ، اگر کسی نے کچھ کہا ہے تو مجھے بتاؤ میں دو منٹ میں اس کی آئ ڈی ہیک کرلوں گا۔ _!_ نہیں جی یہ جھوٹ بول رہا ہے اسے ہیکنگ نہیں آتی مجھے آتی ہے۔ _!_ اوۓ تم تمیز سے بات کرو ورنہ تمہاری آئ ڈی ہیک کرلوں گا۔ _!_ ٹھیک ہے ، کرکے دکھاؤ۔ _!_ ابھی نہیں کرسکتا ، لائٹ نہیں ہے۔ _!_ چل بے جھوٹے ، تو کر ہی نہیں سکتا۔ _!_ میں تیری )گالی( تو سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو )گالی( _!_ تیری تو )گالی( ، ایڈمن بنا پھرتا ہے )گالی( _!_ اس دوران اس پوسٹ کرنے والی لڑکی کا کوئ جواب نہیں آیا۔ _!_ ایک نے ذرا ہمت کرکے کہ دیا : اوکے جانا ہے تو جاؤ ، ہم کیا کریں _!_ اسی وقت اس کا جوابی کمنٹ آیا "میں اسی لیے یہاں سے جانا چاہتی ہوں ، یہاں میری کوئ قدر نہیں کرتا" آگے رونے والا سٹکر _!_ اوہ ڈیئر ، آئ ایم رئیلی سوری ، میں تو بس مذاق کررہا تھا۔ _!_ ایڈمن پھر جوش میں آگیا: تمہیں شرم آنی چاہیے ایسے مذاق کرتے ہوۓ ، اچھا آپ پلیز رو مت ، آپ حکم کرو میں اس کو گروپ سے ہی نکال دیتا ہوں۔ _!_ غرض یہ کہ کئ لوگوں کی لڑائ ہوئ ، کچھ نے گالم گلوچ کی ، کچھ تو لڑکی کی حمایت میں اتنا آگے نکل گۓ کہ ایک دوسرے کو گھر سے اٹھوانے کی دھمکیاں دے ڈالیں۔ اب ذرا کہانی کا ختم شد والا حصہ ملاحظہ کریں۔ تین سو سے زائد کمنٹس کے بعد ، پوسٹ کرنے والی لڑکی کا کمنٹ "بیغیرت کے بچو ، میں یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ اس گروپ میں ٹھرکی کون کون ہے ، میں لڑکی نہیں ہوں تمہارا باپ ہوں ہاہاہاہاہاہاہا" اس کے ساتھ ہی ایک دفعہ پھر گالیوں اور لعنتوں کا سلسلہ شروع پاکستانیوں کی اخلاقی حالت کا یہ ادنیٰ سا نمونہ ہے اور یقیناً آپ لوگوں نے بھی ایسے کئ واقعات دیکھے ہوں گے اور امید ہے آپ میں سے کئ اس میں ملوث بھی رہے ہوں گے

مسکراتے رهیں

قرآن کریم کا معجزہ قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی آیت نے مجھے عیسائی سے مسلمان بنادیا۔ یہ ڈاکٹر غرینیہ تھے جو پیرس کے ایک کامیاب طبیب ہونے کے علاوہ فرانسیسی حکومت کے رکن تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ حکومت سے الگ ہوگئے اور پیرس چھوڑ کر فرانس کے ایک چھوٹے گائوں میں سکونت اختیار کرلی اور خدمت خلق میں مصروف ہوگئے۔ محمود مصری نے ان سے ان کے مکان پر مل کر ان کے اسلام قبول کرنے کا سبب دریافت کیا۔ قرآن کی ایک آیت، ڈاکٹر نے جواب دیا۔ کیا آپ نے کسی مسلمان عالم سے قرآن پرھا ہے، نہیں میری اب تک کسی مسلمان عالم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ پھر یہ واقعہ کیوں کر پیش آیا۔ ڈاکٹر غرینیہ نے جواب دیا۔ مجھے اکثر سمندری سفروں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے، میری زندگی کا بڑا حصہ پانی اور آسمان کے درمیان بسر ہوا ہے۔ اسی طرح ایک سفر میں ایک بار مجھے قرآن کا فرانسیسی ترجملہ ملا۔ یہ موسیو قاری کا ترجمہ تھا، میں نے اسے کھولا تو سورہ نور کی ایک آیت سامنے تھی جس میں ایک سمندری نظارے کی کیفیت بیان کی گئی۔ ترجمہ: جیسے اندھیرا گہرے سمندر میں، اس کا ڈھانپ لیا ہو موج نے، لہر کے اوپر لہر، اس کے اوپر بادل۔ اندھیرے پر اندھیرا اس حالت میں ایک شخص اپنا ہاتھ نکالے تو توقع نہیں کہ وہ اس کو دیکھ سکے اور جس کو خدا نور نہ دے اس کے لیے کوئی روشنی نہیں۔ میں نے اس آیت کو نہایت دلچسپی سے پڑھا جس میں سمندری نظارے کی کیفیت بیان کی گئی تھی، جب میں نے آیت پڑھی تو میں تمثیل کی عمدگی اور انداز بیاں کی واقفیت سے بے حد متاثر ہوا، میں نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ایک ایسے شخص ہوں گے جن کے رات اور دن میری طرح سمندری سفروں میں گزرے ہوں گے، پھر بھی مجھے حیرت تھی کہ انہوں نے گمراہیوں کی آوارگی اور ان کی جدوجہد کی بے حاصلی کو کیسے مختصر الفاظ میں بیان کیا ہے گویا کہ وہ رات کی سیاہی، بادلوں کی تاریکی اور موجوں کے طوفان میں ایک جہاز پر کھڑے ہیں اور ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی بدحواسی کو دیکھ رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ سمندری خطرات کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر بھی اتنے کم الفاظ میں اتنے کامیاب طور پر خطرات بحر کی تصویر کشی نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی نے کبھی زندگی بھر میں سمندر کا سفر نہیں کیا، اس انکشاف کے بعد میرا دل روشن ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں ہے بلکہ اس خدا کی آواز ہے جو رات کی تاریکی میں ہر ڈوبنے والے کے ہی حوصلہ کو دیکھ رہا ہوتا ہے،اس کے بعد میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں مسلمان ہوجائوں۔

جب خود سے قران کو سمجھنے کی کوشش کی تھی تو سورہ مطففین کا ترجمہ کچھ یوں سمجھا تھا: وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ * الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ * وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ۔ تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلیئے۔ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب لوگوں کو ناپ یا تول کر دیتے ہیں تو کمی کردیتے ہیں۔ سورہ مطففین آية 1 تا 3۔ اور یہ سورت یہ سمجھ کر چھوڑ دی تھی کہ یہ تو تاجر حضرات کیلیئے ہے، ہمارے لیئے اس میں احکامات نہیں ہیں۔ حضرت جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے ایک دفعہ اسی سورت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سورت صرف تاجر حضرات کیلیئے ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ سورت ہر اس شخص کیلیئے ہے جو لوگوں سے تو پوری امیدیں رکھے لیکن ان کی امیدوں پر پورا نہ اترے۔ لوگوں سے لیتا ہے تو پورا لیتا ہے ان کو دیتا ہے تو گھٹا کر دیتا ہے یعنی لوگوں کے جو حقوق اس پر ہیں ان کو تو پورا وصول کرتا ہے، لیکن اس پر جو لوگوں کے حقوق ہیں انہیں پورا پورا ادا نہیں کرتا۔ پڑوسی کی عورتیں تو دیکھتا ہے۔ لیکن چاہتا ہے پڑوسی اس کی عورتوں کو نہ دیکھے۔ رشتہ دار تو اس کا خیال رکھیں۔ ہر خوشی غمی میں شریک ہوں لیکن یہ رشتہ داروں کی خوشی غمی میں شریک نہ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔ اولاد سے تو خدمت کی امید رکھے لیکن اولاد کے حقوق ادا نہ کرے۔ بیوی سے خدمت کی امید رکھے لیکن بیوی کے جو حقوق لازمہ ہیں ان میں کوتاہی کرتا ہو۔ اور سب سے بڑی بات اللہ سے تو پورے پورے انعام کی امید رکھے اور شکوے کرے لیکن اس کی ویسی عبادت اور شُکر نہ کرے جو اسکا حق ہے۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ قران پڑھنے اور سیکھنے میں کیا فرق ہے۔

میں ہر صبح اپنی بیگم کو اس کی یونیورسٹی چهوڑنے جاتا تها.یونیورسٹی کے مین گیٹ پہ پہنچ کے میں گاڑی روکتا اور نیچے اتر کر دوسری طرف کا دروازہ کھولتا ،خوش اسلوبی اور تبسم ہونٹوں پہ بکهیرتے مگر ہاتهہ پکڑ کے انہیں نیچے اتارتا،وہ اپنی سہیلیوں کے ساتهه ہنستی مسکراتی اندر چلی جاتی اور میں گهر کی راہ لیتا ، دوپہر میں آتا چاک و چوبند شاہی نوکر کی طرح گاڑی کا دروازہ کھولتا وہ کسی شہزادی کی طرح گاڑی کی فرنٹ سیٹ میں اک ادائے دلبرانہ اور مسکان قاتلانہ کے ساتهه فروکش ہوتی پهر ہم گهر چلے جاتے اگلی صبح پهر .....یہ ہمارے روز کا معمول تها.ادهر یونیورسٹی میں ، میرا چرچا لڑکیوں کے درمیان خوب ہوا جارہا تها.کوئی کہتی "اللہ ہر کسی کو ایسا رومانس اور ٹوٹ کے محبت کرنے والا شوهر دے." تو کسی کے لبوں میں دعائیں ہوتی ."خدایا اس جوڑے کو صدا سکهی اور شاد رکهه " کچهه رشک کی انتہا کو پہنچتی "رب کریم مجهے بهی ایسا ہی چاہنے والا شریک حیات نصیب کر." لیکن سچ میں ہمارے درمیان کوئی رومانس تها نہ محبت !!! دراصل گاڑی کا دروازہ خراب تها جو صرف باهر سے کهولنے کی صورت ہی کهلتا تها.

داعش کا مجاھد؛؛؛؛؛؛؛؛؛ داعش مجاھدین نے ایک عیسای میاں بیوی کی گاڑی کو روکا " کیا تم لوگ مسلمان ہو" داعش کے سپاھی نے پوچھا " جی ہم مسلمان ھے " عیسای آدمی نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے جواب دیا داعش کا مجاھد : اگر تم مسلمان ہو تو قرآن سے کوی آیت سناو" عیسای نے بائبل سے آیتیں سنا دی داعش کا سپاھی : "چلیں آپ جائیں " تھوڑی دور آگے نکل لینے کے بعد اس عیسایی کی بیوی اپنے خاوند پر چڑھ دوڑی " میں یقین نھی کرسکتی کہ آخر تم نے اتنا بڑا رسک کیسے لیا،،!! تم نے انکو یہ کیوں بتایا کہ ھم مسلمان ھے اور قرآن کی جگہ تم نے بائبل کی تلاوت سنا دی اگر وہ سمجھ جاتا کہ یہ قرآن کی آیت نھی ھے تو۔۔۔۔؟؟ " اگر وہ قرآن کی آیتوں کو سمجھتا تو وہ لوگوں کو قتل نھی کرتا کوی بھی مسلمان جو قرآن کو سمجھتا ھے لوگوں کو قتل نھی کرتا" اسکے شوھر نے مسکراتے ہوے کہا یاد رکھئیں،،،،،!! دھشت گردوں کا کوی مذھب نھیں ھے،،،،!!

سبحان الله نہایت زبردست لکھی گئی ... کاش میں دور پیمبر میں اٹھایا جاتا ... بخدا قدموں میں سرکار صلی اللہ علیھ والہ وسلم کے پایا جاتا ... ساتھ سرکار (صلی اللہ علیھ والہ وسلم ) کے غزوات میں شامل ہوتا ... ان کی نصرت میں لہو میرا بہایا جاتا ... ریت کے زرّوں میں الّلہ بدل دیتا مجھے ... پھر مجھے راہ محمد صلی اللہ علیھ والہ وسلم میں بچھایا جاتا ... خاک ہو جاتا میں سرکار صلی اللہ علیھ والہ وسلم کے قدموں کے تلے ... خاک کو خاک مدینہ میں ملایا جاتا ... مل کے سب لوگ مجھے مٹی سے گارا کرتے ... پھر مجھے مسجد نبوی میں لگایا جاتا ... کاش اے کاش میں ہوتا کوئ ایسی لکڑی ... جس کو سرکار صلی اللہ علیھ والہ وسلم کے ممنبر میں لگایا جاتا ... یا اترتا میں کسی نعت کے مصرعے بن کر ... روبرو ان (صلی اللہ علیھ والہ وسلم ) کے میں ان کو ہی سنایا جاتا ... ہوتے اس دور کا قصہ کوئ نورو عرفان... آج کے دور میں بچوں کو پڑھایا جاتا ...

نصیر الدّین

ایک دن امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ