نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں
خون ناحق کی دھشت ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ شہزادی جب سے حضرت سعید بن جبیر نے کوفہ میں رہائش اختیار کی تھی ، یہ شہر حجاج بن یوسف کے زیر تسلط آچکا تھا، حجاج ان دنوں عراق، ایران اور سرزمین ماوراء النہر کا گورنر تھا، اور اس کا رعب ودبدبہ ،ظلم وستم، جبروقہر اور اقتدار واختیار نقطہ عروج پر تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب حجاج بن یوسف نے چاروں طرف بنوامیہ کے خلاف اٹھنے والی شورش کی آگ کو بجھادیا تھا، اس نے بندگان خدا کی گردنوں پر بے دریغ تلوار چلائی، ملک کے کونے کونے میں اپنے رعب ودبدبہ کی ایسی دھاک بٹھادی کہ لوگوں کے دل اس کی پکڑ دھکڑ سے لزرنے لگے۔ حضرت سعید بن جبیر کو بس اتنی سی جرم کی سزا میں شھید کیا گیا کہ اس نے حجاج کے بارے میں کہا تھا " تم نے خطا کی ھے ظلم کیا ھے برای کی ھے اور حد سے آگے بڑھ گیے ھو" حجاج بن یوسف کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے حضرت سعید بن جبیر کو اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا،فوجی حضرت سعید بن جبیر کے گھر گیئے اور دروازے پر دستک دی، حضرت سعید بن جبیر اس غضبناک دستک کو سمجھ گیئے۔ آپ نے پوچھا : کیا چاھتے ہو فوجی : حجاج نے آپکو فوراََ طلب کیا ھے سعید بن جبیر : تھوڑا صبر کرو میں آتا ہوں اندر جاکر غسل فرمایا اور حنوط شدہ ملا عطر ( مردوں کے استعمال کے لیے) لگایا کفن پہنا اور فرمایا " اے پرودگار میرے لیے حجاج کے شر سے کافی ھوجا" جب سعید بن جبیر کو حجاج بن یوسف کے دربار میں پیش کیا گیا، حجاج نے انہیں کینہ پرور نگاہوں سے دیکھا اور بڑے حقارت آمیز لہجے میں پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: سعید بن جبیر حجاج نے کہا: نہیں بلکہ تیرا نام شقی بن کسیر ہے۔ فرمایا: میری والدہ میرے نام کے متعلق تجھ سے بہتر جانتی ہے حجاج نے کہا: توشقی اور تیری ماں بھی شقی ہیں۔ سعید نے کہا: غیب کا علم کسی اور کو ہے، (یعنی اللہ تعالیٰ) وہ ذات جانتی ہے کہ میں اور میری ماں جنتی ہیں یا دوزخی۔ تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ سعید نے کہا: تم اپنے آپ سے زیادہ واقف ہو۔ حجاج نے کہا: نہیں، بلکہ میں تمہاری رائے جاننا چاہتا ہوں۔ سعید نے کہا: میری بات تمہیں مغموم کردے گی نہ کہ خوش۔ حجاج نے کہا: ٹھیک ہے ہم تم سے سنیں گے۔ سعید کہنے لگے: مجھے معلوم ہے کہ تم اللہ کی کتاب کے مخالف ہو، تم رعب جمانے کے لیے ایسی چیز کرتے ہو جو تمہیں جہنم تک پہنچائے گی۔ حجاج : میں تم کو سونے چاندی سے نوازنا چاھتا ھوں سعید کے سامنے سونے چاندی کے تھیلے ڈال دو جو فوراََ ڈال دیئے گیئے سعید ؛ یہ کیا ھے حجاج ! اگر یہ مال تو نے اللہ ک رضا اور اللہ کے غیض و غضب سے بچنے کے لیے بنایا ھے تو یہ قابل تعریف ھے لیکن اگر یہ مال تو نے غریب لوگوں اور ناجائز طریقے سے ھڑپ لی ھے تو قسم ھے تم کو روز قیامت سے ڈرنا چاھیئے، حجاج : سعید تم ھماری طرح ھنستے کیوں نھی؟ سعید : جب میں روز قیامت کا تصور کرتا ھو کہ قبروں سے نکال دیئے جاے گے اور سینوں کے پوشیدہ راز پاش کیئے جاے گے تو میں اس دن کے ڈر سے ھنسی بھول جاتا ھو، حجاج: تو سعید پھر ھم کو ھنسی کیوں آتی ھے؟ سعید : لوگوں کے دل یکساں نھی ھوتے حجاج۔ حجاج نے کہا: ہم تم کو ایسے قتل کردینگے جس کی مثال نھی ھوگی؟ سعید نے کہا: اے حجاج! تو اپنے لیے جیسے قتل کا طریقہ چاہتا ہے وہی اختیار کر، اللہ کی قسم تو مجھے جس طرح قتل کرے گا آخرت میں اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح تیرا قتل فرمائیں گے۔ حجاج : ہم تمھاری دنیا کو ایسی آگ میں تبدیل کردینگے جو بڑی شغلہ بار ھوگی سعید: اگر تم ایسا کرنے پر قادر ھوتے تو میں اللہ کو چھوڑ کر تیری عبادت کرتا پھر حجاج نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں معاف کردوں۔ سعید نے کہا: اگر معافی ہوئی تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے،اور اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں۔ حجاج نے کہا: اسے لے جاؤ اور قتل کردو، (جب حضرت سعید اس کے پاس سے نکلے تو ہنس دیا) حجاج نے کہا: کس چیز نے تمہیں ہنسایا؟ سعید نے کہا: تیری اللہ پر جراءت اور اللہ کی تجھ پر نرمی نے مجھے تعجب میں ڈالا۔ تو حجاج نے کہا: اس کا سر قلم کردو اور ذبح کے لیے اسے لٹادے۔ سعید کی زبان سے جاری ہوا: إني وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ۔ [الأنعام: 79] ’’میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمان وزمین بنایا۔‘‘ حجاج نے کہا: اس کی پشت کو قبلے کی طرف کردو۔ سعید کہنے لگے: فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ [البقرة: 115] ’’تو جدھر بھی تم رخ کرو، ادھر ہی اللہ کی ذات ہے‘‘ پھر حجاج نے حکم دیا : اسے منہ کے بل لٹادیا جائے۔ سعید کہنے لگے: مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى۔[طه: 55] ’’اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا، اسی میں لوٹائیں گے، اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے‘‘ حجاج کہنے لگا : بڑا تعجب ہے اس پر، اس موقع پر اسے یہ آیات کیسے یاد آرہی ہیں! اسے ذبح کردو! سعید کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، حجاج یہ کلمات لو اور پھر قیامت کے دن اس کے ساتھ ملاقات ہوگی۔۔ اس کے بعد حضرت سعید نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا کہ وہ میرے بعد کسی کو قتل کرسکے۔ سعید بن جبیر کو ذبح کردیا گیا، اللہ تعالیٰ نے سعید کی دعا کو قبول فرمایا، پھر ان کے بعد حجاج کسی کو قتل نہیں کرسکا۔۔ حضرت سعید کی شہادت کے بعد حجاج صرف چالیس دن ہی زندہ رہا، یہ بھی کہا جاتا ہے وہ پندرہ دن یا صرف تین دن زندہ رہا، سخت بخار میں مبتلا ہوا اور مر گیا، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب حسن بصری کو حجاج کے ہاتھوں حضرت سعید کے قتل کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی: "اللهم يا قاصم الجبابرة اقصم الحجاج". ’’اے سرکشوں کو ختم کرنے والے! حجاج کو ختم فرما‘‘ ان کی دعا کے تین دن بعد ہی حجاج کے پیٹ میں ایک کیڑہ پیدا ہوا اور وہ بری موت مرگیا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حجاج کی موت سے چند دن پہلے اس کی زندگی خوابوں میں تبدیل ہوگئی تھی، اس کی نیند اڑ چکی تھی، جب بھی سونے کی کوشش کرتاخواب میں سعید بن جبیر اس کے پیروں کو کھینچتے ہوئے دکھائی دیتے، حجاج بھڑبھڑا کر چیختے ہوئےنیند سے بیدار ہوجاتا اور کہتا : ارے یہ سعید بن جبیرابھی ابھی انھوں نے میرے پیروں کو پکڑا تھا، اور کبھی چیختے ہوئے بیدار ہوتا : ارے سعید بن جبیر میرا گلا گھونٹ رہا ہے اور کبھی نیند سے یہ کہتا ہوا بیدار ہوتا: سعید بن جبیر کہہ رہا ہے کس جرم میں تونے مجھے قتل کیا؟ پھر حجاج رونے لگ جاتا اور کہتا میرا اور سعید بن جبیر کا کیا معاملہ ہے۔ حجاج بن یوسف کا بیان ھے کہ اس رات جب میری آنکھ لگ گیئ تو میں نے خود کو خون کے دریاؤں میں تیرتا دیکھا،حجاج کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ اس کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ راستہ چلتے ہوئے بڑ بڑاتا تھا’’ سعید بن جبیر کو میرے پاس سے ہٹاؤ‘‘ یہ بھی منقول ہے کہ بعض لوگوں نے حجاج کو خواب میں دیکھا تو اس سے پوچھا: حجاج اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ حجاج نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے بدلے مجھے ایک ایک بار قتل کیا اور سعید بن جبیر کے بدلے ستر مرتبہ قتل کیا۔ اللہ تعالیٰ تابعی جلیل حضرت سعید بن جبیر پر رحم فرمائے،جن کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: سعید بن جبیر شہید کردیئے گئے، لیکن روئے زمین کا ہر باشندہ ان کے علم کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت سعید بن جبیر پر اپنی رحمتوں کی برکھا برسائے، اور انھیں نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اپنے وسیع وعریض جنت میں داخل فرمائے البدایہ والتاریخ صفحہ 38 جلد 6 وسیر اعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 330 المنتظم فی التاریخ الملوک الامم 7/7
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں