نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں
مولانا طارق جمیل صاحب کی میں بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ داڑھی رکھنے کا شوق مجھے ان کے بیانات سے ہوا اور پھر جب میں تصوف کی طرف آیا تو اللہ نے اتنی ہمت دی کہ میں نے سنت کی نیت کرکے داڑھی رکھی اور بال بھی لمبے رکھے، وہ بھی کیا دن تھے جب میں روز استرا ہاتھ میں پکڑ کر داڑھی صاف کرنے کا سوچتا کیونکہ لوگ مذاق اڑاتے تھے، کہتے تھے کہ مولوی سے کون شادی کرے گا ہر کوئی مولوی مولوی کہہ کر تمسخر اڑاتا تھا لیکن جب نیت کی تو ذہن ایک دم صاف ہوگیا، اللہ نے شاید اسی نیکی کے اجر میں مجھے ایک اچھی بیوی دی جو ڈاکٹر بھی ہے اور میری عزت اور وقار میں اضافہ بھی کیا، مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میری دادی بیمار تھیں اور میں ان کو ملنے گیا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور بولیں کہ ہمارے خاندان میں ستر سال بعد تم نے داڑھی رکھی ہے تمھارے پر دادا کے بعد کسی نے نہیں رکھی انہوں نے بتایا کہ تمھارے دادا سے لے کر پچھلی 10 پشتوں میں سب کہ سب حافظ قرآن تھے ، یہ جان کر بھی خوشی ہوئی جب انہوں نے بتایا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے دو مساجد بھی تعمیر کیں آج بھی دہلی میں وہ مساجد قائم ہیں، میری دادی کچھ دن بعد اللہ کے پاس چلی گئیں لیکن ان کا مسکراتا چہرہ آج بھی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، انسان زندگی بھر سیکھتا ہے اور یہ عمل کبھی ختم نہیں ہوتا ، مولانا طارق جمیل ہوں یا ڈاکٹر زاکر نائیک ہوں یا ڈاکٹر اسرار ہوں یہ لوگ بہت اچھے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو دین کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں اور کتنے لوگوں کو راہ راست پر لائے ہیں، جو لوگ دین کی تبلیغ کرنے والوں کی تذلیل کرتے ہیں انہیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیئے کیونکہ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ ہونے دیتا ہے اس لئے ہمیں اللہ کے اچھے بندوں کو بُرا کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیئے ۔ ۔ زریابیاں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں