کہانی ایک توبہ کی ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ شہزادی منصور بن عمار کا کہنا ہے کہ میرا ایک دوست تھا جو بہت گناہ کرتا تھا۔ آخر اس نے توبہ کر لی، پھر میں نے دیکھا کہ وہ بڑی پابندی سے نیک کام کرنے لگا اور تہجد گزار بھی بن گیا ایک دن میری اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔ میرے پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہے۔ میں اس کے گھر پہنچا، دستک دی تو اس کی بیٹی نکلی، اس نے پوچھا کس سے ملنا ہے؟ میں نے بتایا تو لڑکی نے اپنے والد سے میرے لیے اجازت طلب کی۔ جب میں گھر میں داخل ہوا تو وہ بستر پر لیٹا ہوا تھا، اس کے چہرے پر سیاہی چھا گئی تھی، آنکھیں آنسو برسا رہی تھیں اور ہونٹ پھول گئے تھے۔ میں دہشت زدہ ہو گیا عرض کیا: برادر من! کثرت سے لا الہ الا اللہ پڑھو۔ اس نے پھٹی نگاہوں سے میری طرف دیکھا پھر اس پر غشی طاری ہو گئی۔ میں نے دوبارہ کہا: برادر من! زیادہ سے زیادہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کا ورد کرو۔ اسی طرح میں نے تیسری مرتبہ پھر کلمہ پڑھنے کی تلقین کی۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور بڑی حسرت سے بولا: بھئی منصور! میرے اور اس کلمے کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے۔ مین نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور پوچھا بھئی آخر ان نمازوں، روزوں اور تہجد و شب بیداری کا کیا ہوا؟ وہ بولا: یہ سب کچھ غیر اللہ کے لئے تھا۔میری توبہ دکھلاوے کی تھی۔ میں یہ سب اس لئے کرتا تھا تا کہ لوگوں کے درمیان موضوع سخن بنار ہوں اور وہ میرا چرچا کرتے رہیں۔ مجھے یاد کرتے رہیں یہ سب کچھ میں نے لوگوں کے دکھلاوے کے لیے کیا تھا۔ جب میں تنہا ہوتا تو دروازہ بند کرتا، پردہ گراتا، شراب نوشی کرتا اور اپنے پروردگار کی نافرمانی میں مگن ہو جاتا تھا۔ مدتوں میرے یہ کرتوت رہے حتیٰ کہ مجھے بیماری نے آ پکڑا اور میں ہلاکت کے دہانے پر پہنچ گیا۔ میں نے اپنی بیٹی سے قرآن پاک طلب کیا اور اللہ تعالیٰ کے کلام حق کی قسم کھا کر شفا یاب ہونے کی دعا مانگی اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں وعدہ کیا اب ہر گز کسی قسم کا گناہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء یاب کر دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء عنایت کر دی تو پھر اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑا اور لہو و لعب اور لذات و خواہشات میں ڈوب گیا۔ شیطان نے بھی مجھے تھپکی دی میری گمراہیوں کو دھاوا دیا۔ اس نے میرے اور پروردگار کے درمیان کیا گیا عہد و پیمان ردی کی ٹوکری میں ڈلوا دیا اور میں دیر دیر تک طرح طرح کے گناہوں کی طغیانوں میں ڈبکیاں لگاتا رہا۔ یکایک پھر مجھے بیماری نے آ دبوچا اور میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ میرے اہل خانہ نے میرے حکم کے مطابق حسب معمول گھر کے بیچ بستر لگا دیا۔ میں نے قرآن کریم منگوایا اس کی تلاوت کی اور اسے اٹھا کر بے آواز یہ دعا کی۔” الہٰی اس قرآن پاک میں موجود تیرے محرمات کی قسم کھا کر عہد کرتا ہوں اگر تو نے مجھے صحت بخش دی تو اب میں ہر گز برائیوں میں ملوث نہیں ہوں گا “۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعا سن لی، میری توبہ قبول فرمائی اور مجھے صحت و عافیت سے نواز دیا۔ لیکن افسوس اپنی پستی اور عہد شکنی پر کہ اس رب کریم کی بار بار مہربانی کے باوجود میں پھر لہو و لعب اور لذت و خواہشات کے گرداب میں ڈوب گیا۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ آج اس درد ناک مرض میں مبتلا ہو چکا ہوں، حسب عادت میرے اہل خانہ نے بیچ گھر میرا بستر لگا دیا ہے جیسا کہ تم بچشم خود دیکھ رہے ہو۔ میں نے پھر قرآن منگوایا، تلاوت کرنے لگا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ رب العزت مجھ پر سخت غضبناک ہے، پس میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور دعا کی” الہیٰ زمین و آسمان کے حکمران! میری مصیبتوں سے مجھے نجات دے “۔ لیکن میرے کانوں میں ایک آواز گونجی، پھر یوں لگا جیسی کوئی غیبی آواز یہ کہہ رہی ہو۔ ؛” جب تمہیں بیماری آ لگتی ہے تو گناہوں سے تائب ہو جاتے ہو لیکن جونہی شفا نصیب ہوتی ہے تو گناہوں میں ملوث ہو جاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے درد و الم سے کتنی دفعہ نجات بخشی ہے اور بارہا آزمائش کے گڑھے سے نکالا ہے۔ کیا تجھے خواہشاتِ نفسانی کے طوفان میں اڑنے سے پہلے کا خوف دامن گیر نہیں ہوا حالانکہ خطا کاریوں کی بنا پر تجھے بارہا آفت رسیدہ ہونا پڑا تھا “۔ منصور بن عمار کہتے ہیں اللہ کی قسم! جب میں اس سے رخصت ہو کر واپس چلا تو میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں، میں ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ بے ساختہ آہ بکا میں بھیگی ہوئی آواز آئی:”وہ مر گیا “ کتاب : مائتہ قصۃ و قصۃ القسم الاول 21-23 مصنف مھمد امین الجندی

تبصرے

مشہور اشاعتیں